1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے دو برس بعد

شمشیر حیدر Wesley Dockery
4 ستمبر 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول دیے جانے کے اعلان کے بعد سن 2015 میں اگست اور ستمبر کے مہینوں میں لاکھوں تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ دو برسوں کے دوران کیا کیا ہوا؟

https://p.dw.com/p/2jKJ4
Flüchtlinge an der österreichisch-deutschen Grenze
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

اگست 2015

پچیس اگست سن 2015 کے روز جرمنی نے شامی مہاجرین کے لیے ’ڈبلن ضوابط‘ معطل دیے تھے۔ ان ضوابط کے تحت تارکین وطن صرف اسی یورپی ملک میں پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد یونان اور بلقان کی ریاستوں میں موجود شامی مہاجرین سمیت لاکھوں تارکین وطن جرمنی پہنچ گئے تھے۔

اس بحرانی صورت حال کے دوران ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ’’ہم یہ کر سکتے ہیں‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ شام اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ خطوں سے ہجرت کرنے والے افراد کو پناہ دینا جرمنی کی ’’قومی ذمہ داری‘‘ ہے۔

میرکل اور شلس کا ٹی وی مباحثہ، اہم موضوعات کیا تھے؟

ستمبر 2015

چار ستمبر کے روز جرمنی اور آسٹریا نے ہنگری میں پھنسے مہاجرین کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ میونخ کے مرکزی ٹرین اسٹیشن پر مہاجرین کے استقبال اور خوش آمدید کہنے والوں کا رش تھا۔ عوامی سطح پر اس خوش آمدیدی انداز کے باعث جرمنی یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی پسندیدہ منزل بھی بنا رہا۔

تاہم صرف دو ہفتے بعد 13 ستمبر کے روز جرمنی نے آسٹریا سے متصل سرحدی راستوں کی نگرانی سخت کرنا شروع کر دی تھی۔

کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے

اکتوبر 2015

اکتوبر میں یورپی یونین اور ترکی نے مہاجرین کے بہاؤ کو منظم کرنے اور روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر اتفاق کر لیا۔ پندرہ اکتوبر کے روز جرمن پارلیمان نے پناہ کے قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے البانیا اور کوسووو جیسے مشرقی یورپی ممالک کو ’محفوظ ممالک‘ کا درجہ دے دیا۔

میرکل کی السیسی سے ملاقات، مہاجرین کے بحران پر بات چیت

نومبر 2015

نومبر کے مہینے میں جرمنی میں مقیم مہاجرین کے اہل خانہ کو جرمنی لانے کے قوانین بھی سخت بنا دیے گئے۔ علاوہ ازیں برلن حکومت نے ملکی سرحدوں پر تارکین وطن کے لیے خصوصی مراکز قائم کرنا شروع کر دیے۔ ان مراکز میں ان ممالک سے آئے تارکین وطن کو رکھا جا رہا تھا، جن کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات کم تھے۔

دسمبر 2015

سال کے آخر تک جرمنی میں قریب ایک ملین مہاجرین اور تارکین وطن پناہ کے حصول کی خاطر پہنچ چکے تھے۔ مجموعی طور پر اسی برس مہاجرین کے رہائشی مراکز پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔

سال نو کے موقع پر کولون میں خواتین کو جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے واقعات کے بعد عوامی سطح پر میرکل کی مہاجر دوست پالیسیوں پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ ایک واقعہ جرمنی  میں مہاجرین کے لیے ’خوش آمدیدی کلچر‘ میں نمایاں کمی کا سبب بھی بنا۔

جرمنی میں پانچ سو سے زائد مشتبہ افراد حملہ کر سکتے ہیں، وزیر داخلہ

مارچ 2016

بلقان کی متعدد ریاستوں نے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں بند کر دیں جس کے بعد ان راستوں سے جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کم ہو گئی۔ جرمنی میں مہاجر مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی پہلی مرتبہ تین وفاقی جرمن ریاستوں کی پارلیمان میں پہچنے میں کامیاب ہوئی۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق معاہدہ طے پایا۔

Infografik zum Schwerpunkt InfoMigrants Thema 1 Grafik 1 Anzahl Flüchtlinge ENG
جرمنی میں مہاجرین کی تعداد سے متعلق گراف

اپریل 2016

یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ طے پانے والے منصوبے کے تحت یونان پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجنے اور ہر شامی مہاجر کے بدلے ترکی میں موجود ایک شامی مہاجر کو قانونی طور پر یورپ آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

مئی 2016

یورپی یونین نے ایسے رکن ممالک کے خلاف جرمانہ عائد کرنے کے ایک منصوبے پر کام شروع کیا جو ’’مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے یورپی منصوبے‘‘ کے تحت یونان اور اٹلی میں موجود مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔

جولائی 2016

انیس جولائی کے روز ایک نوجوان افغان تارک وطن نے ایک ٹرین میں سوار مسافروں پر خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کر دیا جس میں بیس افراد زخمی ہوئے۔ پچیس جولائی کے روز آنسباخ شہر میں ایک شامی مہاجر نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا جس میں بارہ افراد زخمی ہوئے۔

نقاب جرمن معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتا، جرمن وزیر داخلہ

دسمبر 2016

چودہ دسمبر کے روز جرمنی نے پہلی مرتبہ افغان تارکین وطن کو خصوصی طیارے میں سوار کر کے واپس افغانستان ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کا۔

انیس دسمبر کو تیونس سے تعلق رکھنے والے تارک وطن نے برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک سے حملہ کر دیا جس میں بارہ افراد ہلاک اور چھپن زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں اطالوی شہر میلان میں حملہ آور خود بھی مارا گیا۔ اس حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر جرمن چانسلر کی مہاجر دوست پالیسی تنقید کی زد میں آئی۔

مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟

فروری 2017

جرمنی میں دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد چانسلر میرکل نے پناہ کے مستر درخواست گزاروں، خصوصاﹰ افغان مہاجرین کی تیز تر ملک بدریوں کا منصوبہ پیش کیا۔

مارچ 2017

تین مارچ کے روز انگیلا میرکل نے تیونس کے ساتھ پندرہ سو تیونسی شہریوں کی وطن واپسی کے لیے ایک معاہدہ طے کیا۔

اگست 2017

گیارہ اگست کے روز اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق امور کے کمشنر فلیپو گرانڈی نے چانسلر میرکل سے ملاقات کی۔ جرمنی نے اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق اداروں کے لیے پچاس ملین یورو مختص کیے۔ میرکل نے بحیرہ روم میں فعال انسانوں کے اسمگلروں کو روکنے کے لیے تعاون کا اعلان بھی کیا۔

چانسلر میرکل نے اٹھائیس اگست کے روز یورپی اور افریقی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں ان خطوں سے یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے افراد کو روکنے کے طریقہ کار پر گفتگو کی گئی۔

صوبائی انتخابات میں ناکامی کا سبب، ’میرکل کی مہاجر دوست پالیسی‘