1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی کشتی سینکڑوں مہاجرین کے ساتھ سمندر برد

عاطف توقیر3 جون 2016

غیر قانونی طور پر افریقہ سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین سے بھری ایک اور کشتی ڈوب جانے کے واقعے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ یونان جزیرے کریٹے کے قریب ایک بڑا ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1IzzL
Mittelmeer Libyen Flüchtlingsboot Rettungsaktion
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare

بتایا گیا ہے کہ اس سمندر برد ہونے والی کشتی میں کم از کم سات سو افراد سوار تھے اور یہ یونانی جزیرے کریٹے کے قریب بحیرہء روم کی بے رحم موجوں کا مقابلہ کرتے کرتے آخر ہار گئی۔ بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت IOM کے مطابق اب بھی سینکڑوں مہاجرین لاپتہ ہیں، جن کی تلاش کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ افریقہ سے یورپ کا رخ کرنے والی یہ کشتی جمعے کے روز کریٹے کے قریب ڈوب گئی۔ اس کشتی پر سوار افراد میں سے اب تک ڈھائی سو کو بچایا جا چکا ہے، جب کہ سینکڑوں ابھی تک لاپتہ ہیں۔

جنوبی بحیرہ روم میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد یونانی کوسٹ گارڈز کی کشتیاں جائے واقعہ پر موجود ہیں اور ڈوبنے والوں کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں۔

یونانی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کے مطابق جنوبی یونانی جزیرے کریٹے سے 75 سمندری میل جنوب میں یہ واقعہ جس مقام پر پیش آیا، وہ مصری انتظام میں آتا ہے۔

Flüchtlinge ertrunken Helfer bergen totes Baby Sea-Watch
سینکڑوں افراد کو بچایا گیا ہے تاہم سینکڑوں اب بھی لاپتہ ہیںتصویر: Reuters/C.Buettner/Eikon Nord GmbH

بتایا گیا ہے کہ جمعہ کی صبح تک 302 افراد کو بچایا جا چکا تھا۔ فی الحال متاثرہ افراد کی قومیت یا شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

یونانی میڈیا کے مطابق لکڑی کی اس کشتی میں سوار یہ افراد یونانی جزیرے کی جانب بڑھ رہے تھے، تاہم کشتی میں رفتہ رفتہ پانی بھرنا شروع ہو گیا اور پھر وہ غرق ہو گئی۔ فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ یہ کشتی کس ملک سے روانہ ہوئی تھی، تاہم کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کشتی نے شمالی افریقہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس لاکھوں افراد نے ترکی سے یونانی جزائر کا رخ کیا، تاہم اب ترکی اور یونان کے درمیان بحیرہء ایجیئن کے سمندری راستے کی زیادہ سختی سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ترکی اس علاقے سے یورپی یونین کا رخ کرنے والے افراد کو روکنے کا پابند ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سردیوں میں مہاجرین کے بہاؤ میں کمی دیکھی گئی تھی، تاہم اب موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی لیبیا سے یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیبیا میں کسی فعال حکومتی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے انسانوں کے اسمگلر لیبیا ہی سے مہاجرین کو یورپ منتقل کرنے میں سرگرم ہیں۔