1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کی مخالفت ميں ہدايت کار نے نوکری ہی چھوڑ دی

عاصم سليم5 دسمبر 2015

جرمنی کے شمالی بندر گاہی شہر ہيمبرگ ميں ايک سرکاری تھيٹر کے ہدايت کار نے احتجاجاً اپنی نوکری ترک کر دی ہے۔ انہيں پناہ گزينوں کے ليے جرمن حکومت کی مقابلتاً نرم پاليسی پر اعتراض ہے۔

https://p.dw.com/p/1HHx5
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Charisius

شمالی يورپ کے ملک لتھووينيا سے تعلق رکھنے والے ايلوس ہرمانس نے اپنی نوکری چھوڑ دی ہے۔ ہيمبرگ کے تھاليا تھيٹر سے انہوں نے اپنی نوکری اس ليے ترک کی، کيوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پناہ گزينوں کے حوالے سے برلن حکومت کی پاليسی کے سبب يورپ کو خطرات لاحق ہيں۔ ان کے مطابق اس پاليسی کے نتيجے ميں ’دہشت گرد‘ خفيہ طور پر جرمنی پہنچ سکتے ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ تھاليا تھيٹر ہيمبرگ ميں تين سرکاری تھيٹرز ميں سے ايک ہے۔ اس کے منتظم يوآخم لُکس عوامی سطح پر يہ بات کر چکے ہيں کہ ان کا ادارہ انسانی ہم دردی کے ناطے پناہ گزينوں کی معاونت کے حق ميں ہے۔ حاليہ پيش رفت پر بات چيت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہم يہ کبھی سوچ بھی نہيں سکتے تھے کہ مستحق افراد کی انسانی بنيادوں پر مدد کی وجہ سے ايک پيشہ وارانہ رشتہ اپنے اختتام کو پہنچ سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ يہ پيش رفت اس موضوع پر جرمنی ميں پائے جانے والی گہری تقسيم کی عکاس ہے۔

حاليہ واقعات کے سبب تھيٹر نے آئندہ برس شروع ہونے والا ايک ڈراما منسوخ کر ديا ہے ليکن ان دنوں جاری ڈراما دکھايا جاتا جاری رہے گا۔

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کا پناہ گزينوں کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے معروف جمعلہ ’ہم يہ کر سکتے ہيں‘ نہ صرف جرمن سياسی اسٹيبلشمنٹ بلکہ عوام ميں بھی منقسم خيالات کی نظر ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے خدشات کا شکار ہيں کہ آيا اتنی بڑی تعداد ميں مہاجرين کو کاميابی کے ساتھ جرمن معاشرے ميں سمويا جا سکے گا۔

يہ امر اہم ہے کہ رواں سال کے اختتام تک شام، عراق، پاکستان، افغانستان اور افريقی ممالک سے سياسی پناہ کے ليے جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد ايک ملين تک پہنچ سکتی ہے۔