1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين جرمنی ميں عيد کيسے منا رہے ہيں؟

عاصم سليم6 جولائی 2016

گزشتہ برس جرمنی آنے والے لاکھوں مہاجرین کی اکثریت کا تعلق مسلمان ممالک سے ہےجو اپنوں سے دور پہلی بار پردیس ميں عيد منا رہے ہيں۔ یہ لوگ اب اپنی نئی زندگی سے کافی مطمئن ہيں ليکن اپنوں سے دور ہونے کی کہيں کچھ خلش باقی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JK5t
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber

شامی پناہ گزين مصطفیٰ شيخ حبيب کی يہ جرمنی ميں پہلی عيد الفطر ہے اور اس موقع پر وہ ملے جُلے رجحانات رکھتا ہے۔ چھتيس سالہ کُرد اپنی اہليہ اور چار بچوں کے ہمراہ جرمن دارالحکومت برلن کے ايک مہاجر کيمپ ميں دو کمروں کے ایک مکان ميں رہتا ہے۔ اس کے بقول عيد کے پر مسرت موقع پر اپنوں سے دور ہونا کچھ عجيب سا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے، ’’ہم يہاں ہيں اور سلامت ہيں۔ يہ اللہ کا کرم ہے۔‘‘

سياسی پناہ کے ليے گزشتہ برس ايک ملين سے زائد مہاجرين جرمنی آئے تھے۔ مہاجرين کی بھاری اکثريت کا تعلق شام، عراق اور افغانستان جيسے مسلمان ممالک سے ہے۔ روايتی طور پر ماہ رمضان اور بالخصوص عيد الفطر رشتہ داروں کے ساتھ منائی جاتی ہے تاہم مہاجر کيمپوں ميں عيد منانا ذرا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ نہ تو لوگ رمضان کے دوران اور عيد پر اپنے من پسند کھانے بنا سکتے ہيں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے پيسے ہوتے ہيں کہ وہ روايات کے مطابق تحفے تحائف اور نئے کپڑے خريد سکيں۔

برلن کے اس مہاجر کيمپ ميں شيخ حبيب کی اہليہ سوزن شيخ نے آج صبح بچوں ميں مٹھائياں، چاکليٹيں اور مشروبات تقسيم کيے۔ کئی بالغوں نے ايک مہينے بعد سہ پہر کا کھانا کيمپ کے کيفے ٹيريا ميں ساتھ بيٹھ کر کھايا، کھانے ميں چنوں کا سالن، ٹماٹر، پياز اور روٹی تھی۔

جرمنی میں اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے باوجود یہاں موجود زیادہ تر پناہ گزين اپنی موجودہ زندگی کو سابقہ زندگی پر فوقيت ديتے ہيں۔ حبيب شام ميں ايک ٹيکسی ڈرائيور کی حيثيت سے ملازمت کيا کرتا تھا۔ اس نے بتايا، ’’ہم يہاں بہت خوش ہيں۔ ميں شام واپس جانے کا سوچ بھی نہيں سکتا۔‘‘ الرقہ سے تعلق رکھنے والا يہ شامی مہاجر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے آبائی ملک ميں جاری خانہ جنگی سے فرار ہو کر يورپ آيا ہے۔ شام سے نقل مکانی کے بعد اس نے دو برس شمالی عراق ميں گزارے اور وہ دس ماہ قبل ہی جرمنی پہنچا ہے۔ حبيب اور اس کے اہل خانہ نے شام چھوڑنے کا فيصلہ اس وقت کيا، جب ايک بم حملے ميں حبيب کے والد چل بسے اور ايک مختلف بم حملے ميں اس کا بارہ سالہ بيٹا محمد بری طرح زخمی ہو گيا۔

ان دنوں مصطفیٰ شيخ حبيب برلن ميں سياسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے بعد اب انٹرويو کا منتظر ہے۔ فوری طور پر تو کوئی امکان نہيں کہ وہ اور اس کے اہل خانہ کسی بڑے مکان ميں منتقل ہو سکيں تاہم يہ سب پر اميد ضرور ہيں۔ سوزن دوبارہ ملازمت کرنا چاہتی ہے۔ يہ خاندان کافی خوش ہے کہ ان کے بچے اسکول جا رہے ہيں اور انہيں زندگی کی چھوٹی چھوٹی سہولتيں ميسر ہيں۔

دريں اثناء جرمن وزير خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے دنيا بھر کے تمام مسلمانوں کو عيد مبارک کا پيغام ديا ہے۔ انہوں نے بالخصوص کہا کہ اس بار جرمنی ميں معمول سے کہيں زيادہ مسلمان عيد منا رہے ہيں۔ اس موقع پر اشٹائن مائر نے کہا کہ جنگ اور تشدد بہت سے لوگوں کوخطرناک راستوں سے فرار ہونے پر مجبور کر رہے ہيں۔ ان کے بقول وہ اس موقع پر بالخصوص ايسے لوگوں کے بارے ميں سوچ رہے ہيں۔