1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مویشی منڈی سے خرید لایا ہوں ... ہم اتنے بے حس کیوں ہیں؟

12 جولائی 2020

سوشل میڈیا پر وائرل ایک میم میں انتہائی بے دردی سے ایک لڑکی کی جسمانی ساخت کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ سائن ٹیون استعمال ہوا ہے ’مویشی منڈی سے خرید لایا ہوں پیارا جانور‘۔ افسر اعوان کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3fBQ4
Deutsche Welle | Redakteur Afsar Baig-Awan
تصویر: privat

چند روز قبل یورپی ملک میں مقیم ایک دوست کی جانب سے وٹس ایپ پر ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا جس میں ایک لڑکی سلو موشن میں چلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور بیک گراؤنڈ میں ایک آڈیو کلپ ہے جو شاید کسی ٹیلی وژن چینل کی عید ٹرانسمشن کے لیے بنایا گیا سائن ٹیون ہے۔

اس میم میں انتہائی بے دردی سے اس لڑکی کی جسمانی ساخت کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ سائن ٹیون استعمال ہوا ہے 'مویشی منڈی سے خرید لایا ہوں پیارا جانور‘۔ یہ کلپ دیکھ کر شدید بُرا لگا مگر میں اس دوست کو کچھ کہے بغیر اسے ڈیلیٹ کر دیا۔

کچھ دیر بعد اسی دوست کا دوبارہ میسیج آیا کہ اب گالیوں کا وقت ہوا چاہتا ہے کیونکہ اس کے بقول اس نے وہی ویڈیو کلپ ایک ایسی پرانی کولیگ کو بھیج دیا ہے جو بظاہر ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکی کی طرح کی جسمانی ساخت رکھتی ہیں۔ اس کے بعد ہوا کیا، اسے جواب میں کچھ سنایا گیا یا نہیں، نہ میں نے پوچھا اور نہ اس نے بتایا۔

پھر یہی میم دیگر کئی گروپوں میں بھی مخلتف لوگوں کی طرف سے بھیجا گیا مگر میرے لیے یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس پر کوئی کمنٹ کیا جاتا ہے۔

آج صبح سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو کلپ دیکھا جس میں اس وائرل میم یا ویڈیو میں موجود لڑکی ٹی وی پر ایک خاتون میزبان کو بتا رہی ہے کہ یہ میم وائرل ہونے کے بعد ان کی ذہنی وجذباتی کیفیت کیا ہے اور کس طرح  لوگوں کی طرف سے ان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی جا رہی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بقول مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے ان کے بھائی اور بھابھی کے ساتھ ویڈیوز کو بھی اب میمز میں استعمال کیا جا رہا ہے جو وائرل ہو رہی ہیں۔ آنسوؤں کو ضبط کرنے کی بھرپور کوشش کے ساتھ یہ باہمت لڑکی میزبان کو بتاتی ہے کہ ان کے لیے اس مشکل وقت میں محض ان کے خاندان اور دوستوں کی سپورٹ ہے جس کی وجہ سے وہ زندہ ہے ورنہ جس قدر مذاق اڑایا جا رہا ہے اور جذباتی حوالے سے روندا جا رہا ہے وہ ڈپریشن اور دکھ میں اپنی جان بھی لے سکتی تھی۔

ہمارے معاشرے میں باڈی شیمنگ یا کسی کی جسمانی ساخت، رنگت یا شکل و صورت کو مذاق کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کسی کا وزن زیادہ ہے تو مذاق، کم ہے تو مذاق، رنگت سانولی ہے تو مذاق اور تو اور نین نقش تک کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ ایسا کرنے والے صرف ان پڑھ یا جاہل لوگ نہیں ہوتے بلکہ انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی شکل و صورت کو اپنی مرضی سے نہیں چنتا۔ اگر کسی کا وزن کم یا زیادہ ہے تو یہ بھی زیادہ تر ان کے بس کی بات نہیں ہوتی بلکہ کوئی نہ کوئی طبی وجہ ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی دیکھنے میں کیسا بھی ہے اس سے ہمارا تعلق کیا بنتا ہے؟ کس نے ہمیں یہ حق دیا ہے کہ ہم اس کی شکل و صورت یا وضع قطع کو مذاق کا نشانہ بنائیں اور وہ بھی اس حد تک کہ اس کی عزت نفس اور اس کی ذاتی زندگی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔

دنیا کا کون سا مذہب قانون یا معاشرہ ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہمیں ذرا سا بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم جو حرکت اپنی طرف سے محض مذاق کے طور پر کر رہے ہیں وہ کسی کے لیے کتنی تکلیف اور دکھ کا سبب بن سکتی ہے۔ ہم ایک لمحے کے لیے بھی خود کو اس شخص کی جگہ پر رکھ کر نہیں سوچتے کہ اگر ہمارے ساتھ ایسا ہو یا ہماری ماں، بہن، بیٹی یا باپ، بیٹے اور بھائی کے ساتھ ایسا ہو تو ہمیں کیسا  لگے گا؟

خاموشی بھی گناہ میں شرکت کے مترادف

اس بے رحمانہ میم اور پھر اس کو پھیلانے کا ذمہ دار صرف وہی شخص نہیں ہے جس نے اسے بنایا، اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص بھی ہے جس نے اسے فارورڈ کیا۔ بلکہ اس کا ذمہ دار میری طرح ہر وہ فرد بھی ہے جسے اگر یہ یا ایسی کوئی بھی چیز کسی گروپ میں موصول ہوئی یا سوشل میڈیا پر دکھائی دی اور اس نے اس کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ اسے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ مجھے دکھ ہو رہا ہے کہ جب اس دوست نے مجھے یہ میم بھیجا تھا تو میں نے اسی وقت اسے کیوں نہ روکا کہ اسے آگے مت پھیلاؤ؟

خاموش تماشائیوں جیسا رویہ اختیار کر کے ہم بھی شریک جرم ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی خود احتسابی کے بغیر نہیں آتی۔

اس لیے میں اس میم میں نظر آنے والی قابل احترام لڑکی کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں سے بھی معافی طلب کرتا ہوں جن کا دل اس ویڈیو یا اسی طرح کی کسی بھی ویڈیو یا الفاظ سے دکھا ہو، اذیت پہنچی ہو یا انہیں برا لگا ہو۔ مجھے معاف کر دیں!