1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موصل میں داعش کے خلاف جنگ ڈراؤنا خواب بنتی ہوئی، عراقی کرنل

مقبول ملک
10 نومبر 2016

عراقی فوج کے ایک ٹینک بردار ڈویژن کے ساتھ ایک ہفتہ قبل موصل شہر کے جنوب مشرقی بیرونی حصے میں داخل ہونے والے ایک عراقی کرنل کے بقول شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف جنگ ایک ’ڈراؤنا خواب‘ بنتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2STR7
Irak Mossul Spezialkräfte Armee
عراقی فوج کے خصوصی دستے موصل کے مضافات میں اپنے زیر قبضہ ایک علاقے میں گشت کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Drobnjakovic)

عراقی دارالحکومت بغداد سے نیوز ایجنسی روئٹرز نے جمعرات دس نومبر کو اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے عراقی فوج کا جو ٹینک بردار ڈویژن موصل شہر کے ایک بیرونی حصے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، اس کے ایک سینئر افسر اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مہارت رکھنے والے ملکی فوج کے نویں آرمرڈ ڈویژن کے ایک کرنل نے بتایا کہ موصل داعش کے گڑھ بڑے عراقی شہروں میں سے بھی اہم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس شہر کو داعش کے جہادیوں سے پاک کرنے کی جنگ اب ایک ’ڈرا دینے والا خواب‘ بنتی جا رہی ہے۔

اس عراقی کرنل کے مطابق موصل میں ملکی فوج کا سامنا ایک ایسے دشمن سے ہے، جس کے جنگجو تجربہ کار ہیں، وہ متحرک بھی ہیں، اپنی بربریت کے لیے مشہور ہیں اور انہوں نے شہر کے ایسے کئی علاقے اپنے قبضے میں لے رکھے ہیں، جہاں وہ شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں۔

نویں آرمرڈ ڈویژن کے اس کرنل نے روئٹرز کو بتایا کہ عراقی فوج کے خصوصی دستے گزشتہ ہفتے موصل شہر کے نواح میں یا اس کے بیرونی حصے میں مجموعی طور پر 60 کے قریب چھوٹے بڑے علاقوں میں سے چھ کو اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

Irak irakische Truppen kämpfen gegen IS südlich von Mossul
’عراقی ٹینک بردار دستوں کو موصل میں یہ جنگ ٹینکوں کے بغیر ہی لڑنا پڑ رہی ہے‘تصویر: REUTERS/T. Al-Sudaini

یہ پیش قدمی 17 اکتوبر سے موصل کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے جاری اس عسکری مہم کی اولین جزوی کامیابی تھی، جس میں عراقی فورسز کو حکومت نواز ملیشیا گروپوں کی زمینی اور امریکی قیادت میں اتحادی ملکوں کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔

لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عراقی فوج کے لیے اپنی اس کامیابی کا عسکری حوالے سے دفاع بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ داعش کے جہادی یونٹ عراقی فوج پر چھپ کر حملے کرتے ہیں، خود کش حملوں کی شرح بھی زیادہ ہو چکی ہے اور اس کے علاوہ اکثر رات کے وقت بھی داعش کے جنگجو عراقی فوج پر حملے کرتے ہیں، جس کی وجہ سے فوجیوں کو آرام کا وقت نہیں ملتا۔

روئٹرز کے مطابق جنوب مشرقی موصل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسند اپنے اس شب خون کے لیے زیادہ تر شہر کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کا وہ کئی کلومیٹر طویل نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں، جسے ناکام بنانا فوج کے لیے فی الحال انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

اس عراقی فوجی کرنل نے، جو میڈیا کے ساتھ بات چیت کا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، روئٹرز کو بتایا، ’’ہمارے دستے ایک ایسا بکتر بند بریگیڈ ہیں، جسے اپنے ٹینک استعمال کیے بغیر ہی دشمن سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے فوجیوں کو شہری علاقوں میں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور اسی لیے انہیں مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔‘‘

Karte, Infografik Anti-IS-Koalition offensive on Mosul ENG klein
Irak Kampf um Mossul gegen den IS - Flüchtlinge aus Hammam al-Alil
جنگ سے بچنے کے لیے موصل کے مضافات سے اب تک ہزارہا عراقی شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیںتصویر: REUTERS

روئٹرز نے اس موضوع پر اپنے مراسلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کر کے داعش نے دو برس قبل اپنی جس نام نہاد ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا، اس کے خاتمے کے لیے موصل پر عراقی دستوں کا آئندہ قبضہ فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہو گا۔ لیکن عسکری حوالے سے یہ حقیقت بھی پریشانی کا باعث ہے کہ موصل کو آزاد کرانا اکیلے عراقی فوج کے خصوصی دستوں کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔

عراقی فوج کے لیے ایک بہت مشکل کام موصل میں عام شہریوں اور داعش کے جہادیوں کے مابین فرق کرنا بھی ہے، جو بظاہر ناممکن ہے۔ ’’ہمارے فوجی حملہ آوروں کو عام شہری سمجھ کر پہچان ہی نہیں پاتے۔ اکثر بہت دیر ہو جاتی ہے۔ تب تک کوئی نہ کوئی خود کش حملہ ہو چکا ہوتا ہے یا فوجیوں پر کوئی دستی بم پھینکا جا چکا ہوتا ہے۔ یہ بات حکومتی دستوں کے لیے ایک اعصاب شکن ڈراؤنا خواب بنتی جا رہی ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں