1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مودی کی اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی‘

امتیاز احمد9 نومبر 2015

بھارتی قوم پرست وزیراعظم اور ان کی پارٹی کی بہار میں ہزیمت آمیز شکست کے بعد بھارتی مالی منڈیوں کو آغاز خوف کے سائے میں ہوا ہے۔ مودی حکومت سے اپنی پالسیاں اور ترجیحات تبدیل کرنے کا مطالبہ مزید زور پکڑ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H26q
Indien Kashmir Srinagar Premierminister Narendra Modi
تصویر: Reuters/D. Ismail

بہار کے انتخابات میں بری شکست کے بعد الجھن کے شکار نریندر مودی اپنی ہندو نیشنلسٹ پارٹی کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں تاکہ اپنی شکست کا جائزہ لے سکیں۔ ایک برس پہلے عام انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد بھارت کی تیسری سب سے گنجان آباد اور غریب ترین ریاست بہار میں مودی کو ملنے والی یہ بدترین شکست اور سب سے بڑا دھچکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جنرل سیکرٹری رام مادھو کا کہنا ہے، ’’ہمیں اس امر کی شناخت کرنی ہے کہ غلط کیا ہوا ہے؟‘‘

بہار میں شکست کے بعد پیر نو نومبر کو نئی دہلی میں واقع بی جے پی کا دفتر سنسان پڑ ا ہے جبکہ وہاں موجود سکیورٹی گارڈز نے لوگوں کی طرف سے دیوالی کے موقع پر پہنچائی جانے والی مٹھائیاں اور تحائف وصول کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ ہندو اپنا مذہبی تہوار دیوالی اسی ہفتے منا رہے ہیں۔ بھارتی حصص، بانڈز اور روپے کے قدر گزشتہ چھ ہفتوں کے مقابلے میں نچلی ترین سطح پر چلی گئی ہے۔ مودی سرکار کی حمایت کرنے والے سرمایہ کاروں میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ طاقتور اپوزیشن نریندری مودی کی مجوزہ معاشی اصلاحات کے سامنے رکاوٹ بن سکتی ہے۔ نریندر مودی کو اپنے اصلاحاتی ایجنڈے میں کامیابی اور پارلیمان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آئندہ تین برسوں کے دوران ریاستی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنا ضروری ہیں لیکن بہار کے نتائج نے نریندر مودی کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ بھارتی ایوان بالا میں پہلے ہی بی جے پی اکثریت میں نہیں ہے۔

Indien Bihan Wahlen
بہار کے انتخابات میں بری شکست کے بعد الجھن کے شکار نریندر مودی اپنی ہندو نیشنلسٹ پارٹی کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں تاکہ اپنی شکست کا جائزہ لے سکیںتصویر: Reuters/A. Mukherjee

بھارت میں ان انتخابات کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب یہ خدشات اپنے عروج پر ہیں کہ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے ملک کے اقلیتی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف ملک کے ممتاز دانشوروں نے بھی احتجاج کیا ہے، جن کے مطابق ملک میں عدم برداشت کا ماحول بڑھتا جا رہا ہے۔

بی جے پی کے اپنے قانون سازوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’عوام کو متحد کرنے والے‘‘ ایجنڈےکی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ بی جے پی کی رکن پارلیمان چندن مترا کا کہنا تھا، ’’ہمیں یکسوئی کے ساتھ صرف ایک چیز پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور وہ ہے ترقی، ترقی، ترقی۔ ہم کسی اور مسئلے میں مشغول ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

قبل ازیں ایک انتخانی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ مخالف پارٹیاں اقتصادی فوائد نچلی ذات کے ہندوؤں سے چھین کر دوسرے مذہب کی اقلیتوں کو دے رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا فقرہ تھا، جسے واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف اشارہ سمجھا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بہار میں متعدد ایسے بینروں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی، جس پر نفرت انگیز مواد لکھا گیا تھا۔ بی جے پی کے صدر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کو شکست ہوئی تو اس کی خوشی پاکستان میں منائی جائے گی۔

بی جے پی کے ایک وزیر ارون شوری نے کا کہنا تھا کہ حکومت کا اپنی مکمل پالیسیاں ہی تبدیل کرنا ہوں گی۔ ان کا بھارتی ٹیلی وژن این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہار میں ’’ہر چیز غلط‘‘ کی گئی ہے۔