1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی اور ٹرمپ کی ملاقات: توقعات کيا اور امکانات کيا؟

عاصم سلیم
26 جون 2017

بھارتی وزير اعظم نريندر مودی آج پير کے روز امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر رہے ہيں۔ دونوں رہنما اس پہلی سرکاری ملاقات ميں باہمی روابط بہتر بنانے اور بالخصوص دفاع کے شعبے ميں تعاون بڑھانے پر زور ديں گے۔

https://p.dw.com/p/2fN5f
Bild-Kombi Modi Trump

وائٹ ہاؤس ميں آج  ہونے والی اس ملاقات ميں دفاعی شعبے ميں تعاون کو اولين ترجيح  حاصل ہوگی۔ مودی اور ٹرمپ کی بات چيت سے قبل ايک سينیئر امريکی اہلکار نے بتايا، ’’امريکا بھارتی شعبہ دفاع ميں جدت لانے اور اس رياست کو ايشيا پيسيفک خطے ميں ايک ليڈر کے طور پر مزيد مستحکم بنانے ميں دلچسچی رکھتا ہے۔‘‘ اس اہلکار کے بقول ’مضبوط بھارت، امريکا کے مفاد ميں ہے۔‘ وائٹ ہاؤس کی جانب سے ممکنہ دفاعی معاہدوں اور ڈيلز کے بارے ميں گرچہ براہ راست کوئی معلومات فراہم نہيں کی گئيں تاہم واضح طور پر يہ ضرور کہا گيا ہے کہ بھارت کو دفاع کے شعبے ميں ايک اہم اتحادی ملک کی حيثيت حاصل ہو سکے گی۔ ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق بھارتی بحريہ کو بائيس بغير پائلٹ والے ڈرون طياروں کی فروخت کے بارے ميں آج اعلان متوقع  ہے۔

علاوہ ازيں دونوں رہنما انسداد دہشت گردی، اقتصادی تعاون اور علاقائی امور پر تبادلہ خيال کريں گے۔ امريکی اہلکار کے مطابق انسداد دہشت گردی کے سلسلے ميں اضافی تعاون اور انٹيليجنس کا تبادلہ بھی اس ملاقات کے ايجنڈے ميں شامل ہے۔ اطلاعات  کے مطابق  تجارتی امور پر زيادہ متوازن تعلقات کا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ امريکا ’انٹليکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ کے سخت قوانين اور بھارت ميں کام کرنے والی امريکی کمپنيوں کے ليے ٹيکس کٹوتياں چاہتا ہے۔

بھارتی وزير اعظم اور امريکی صدر آج  متعدد ديگر محکموں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے ملاقاتيں کريں گے اورآج  شام  وائٹ ہاؤس ميں ايک عشائيے کا اہتمام کيا گيا ہے۔ موجودہ ٹرمپ انتظاميہ کی طرف سے کسی بيرون ملک رہنما کے ليے رکھا جانے والا يہ پہلا عشائيہ ہے۔ ٹرمپ نے اپنی ايک ٹوئيٹ ميں مودی کو ’سچا دوست‘ قرار ديا ہے جبکہ مودی نے بھی لکھا کہ وہ ٹرمپ سے ملاقات کے منتظر ہيں۔

ويسے تو سابق امريکی صدر باراک اوباما کے دور ميں نئی دہلی اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات کافی بہتر ہوئے تھے تاہم رواں سال جنوری ميں ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد تجارت اور بھارتی شہريوں کے ليے امريکا ميں ملازمت کے ويزے جيسے معاملات پر اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ ٹرمپ نے ايک موقع پر يہ بھی کہہ ڈالا تھا کہ ماحولياتی و موسمياتی تبدليوں کے اثرات سے بچنے کے ليے پيرس معاہدے سے نئی دہلی در اصل مستفيد ہو رہا ہے۔ دہشت گردی جيسے اہم معاملے پر ٹرمپ انتظاميہ کی جانب سے يہ کہا جا چکا ہے کہ پاکستان کےخلاف سخت موقف اختيار کيا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہيں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان ايسے الزمات مسترد کرتا آيا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں