1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممبئی میں دہشت گردی، ہندو قوم پسند اورمن موہن سنگھ حکومت

زابینے ماتھائے / افضال حسین2 دسمبر 2008

بھارت کے ہندو نیشنلسٹ ممبئی کے خونی واقعات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ ہندو مسلم کشیدگی میں ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا کردار بھی کچھ غیر واضح نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/G7Jh
ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کےدوران تاج محل ہوٹل کے باہر نگرانی پر مامور بھارتی فوجیتصویر: AP

دوسری طرف من موہن سنگھ حکومت، پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو خود ہی کمزور بھی کررہی ہے۔ اس پس منظر میں نئی دہلی سے زابینے ماتھائے کا ارسال کردہ تبصرہ:


ممبئی میں دہشت گردی کی لہر کو ختم ہوئے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ بھارتی سیاستدانوں نے اس موقع پر نظر آنےوالے ناقص انتظامات سے درست نتائج اخذ کرنا شروع کر دیئے تھے۔ کیاوزیر داخلہ اور قومی سیکیورٹی کے مشیر کے استعفے بھارت کی خفیہ سروس اورسیکیورٹی فورسز میں جامع اصلاحات کا نقطہ آغاز ہے ؟ ممبئی کی خونریزی کو دہشت گردی کے تسلسل کا ایک نیا واقعہ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سن 2004 سے اب تک بھارت میں چار ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ تاہم بھارتی سیاستدانوں نے صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھائے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ دہشت گردوں کے بارے یہ تک علم نہیں کو وہ کون لوگ ہیں۔ خفیہ سروس اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان کس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس کا اندازہ ممبئی کے حالیہ واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح کا نیا قدم اٹھایا جائےگا ؟

سیاستدانوں سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ ہندو نیشنلسٹوں کی جماعت بھارتیہ جنتیا پارٹی نے اس المناک واقعہ کے دوران ہی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کر دی تھیں۔ اس نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ بھارت کی پانچ وفاقی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ چنانچہ BJP حکومت پر تنقید کرکے ووٹروں کی ہمدردیاں جیتنا چاہتی ہے۔ خود بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھی فورا ہی بیرونی ملکوں اور اس طرح پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا کہ اس نے اسلامی عسکریت پسندی بھارت برآمد کی ہےحالانکہ خود بھارت کے اندر اسلامی عسکریت پسند موجود ہیں جنہوں نے اب تک کئی دھماکے کئے ہیں ۔ لیکن من موہن سنگھ ان کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ یہ بات ان کی حکومت کے خلاف جاتی ہے۔

بھارت میں مسلمان باقی تمام آبادی کے مقابلے میں غریب ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب آبادی کے لحاظ سےکم ہے۔ اس کےعلاوہ انہیں اکثرہندو نیشنلسٹوں کے حملوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ 2002 میں ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گے۔ لیکن کسی بااثر ہندو کو آج تک عدالت میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی جن کے دورمیں یہ فسادات ہوئے آج بھی وہاں حکومت کر رہے ہیں۔ ایسی ہی باتیں نسل پرستی اور انتہا پسندی کو فروغ دینےکا باعث بنتی ہیں۔