1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملکی عدالتیں غیر شرعی ہیں : صوفی محمد

شکور رحیم ، اسلام آباد20 اپریل 2009

کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد کی طرف سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو غیر شرعی عدالتیں اور ان میں اپیل دائر کرنے کو حرام قرار دینے کے اعلان پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/HaSc
تصویر: AP Photo

سپریم کورٹ کے سابقہ جج اور معروف قانون دان وجیہہ الدین احمد کے مطابق صوفی محمدکا مذکورہ اعلان اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتا ہے لیکن بقول ان کے سوات کے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے کو زیادہ اچھالا نہیں جانا چاہئے۔ وجیہہ الدین احمد کے مطابق سوات میں قیام امن کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کوششوں کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ضروری ہے ۔ ان کا کہنا ہے : ”سوات میں جو نظام قائم ہوا ہے۔ وہ ابھی پتہ نہیں کس طرح کا نظام ہے ابھی تو اس پر عملدرآمد ہوگا۔ یہ اس وقت دیکھا جائے گا کہ وہ کہاں جاتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں لیکن اس اثناء میں اس کو نہایت دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ معنوں میں دیکھنا ہے۔‘‘

سوات امن معاہدے کی ایک فریق اور صوبہ سرحد میں برسر اقتدار جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ صوفی محمد کے اعلیٰ عدالتوں سے متعلق بیان کو اس کے درست سیاق و سباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔حاجی عدیل کے مطابق پاکستان کا عدالتی نظام انگریز کا قائم کیا ہوا ہے اور علماءکی اکثریت اسے غیر شرعی سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمارے سسٹم میں اگر کسی کو خوش قسمتی سے سپریم کورٹ میں آ کر انصاف ملے گا بھی تو اس کے لاکھوں روپے خرچ ہو چکے ہوں گے اس کی ساری زندگی تباہ ہو چکی ہو گی۔ اس حوالے سے تو وہ صحیح کہہ رہے ہیں کہ یہ طریقہ جو ہے یقیناً انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اور شرعی تو نہیں ہے ۔‘‘

دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں رائج عدالتی قوانین پر بروقت اور مناسب عملدرآمد کیا جائے تو یہ ایک بہترین نظام ہے۔ اتوار کے روز سپریم کورٹ میں عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا :’’ یہ جو موجودہ قانون سول پروسیجر کورٹ، کریمنل پروسیجر کورٹ ہے اور قانون شہادت آرڈر ہے یہ بالکل ٹھیک قانون ہے اگر اس میں رہتے ہوئے ہم اس کو مکمل رائج کریں تو ہمیں ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں ہے اور یہی قانون انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گا اور انشا اللہ آپ تین چار مہینوں میں ہی دیکھئے گا کہ اس کا کتنے اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے ۔‘‘

تجزیہ نگاروں کے خیال میں صوفی محمد کی طرف سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو غیر شرعی قرار دینے اور سوات میں چار دن کے اندر مستقل عدالتوں کو ختم کرنے کی ڈیڈ لائن نے حکومت کو ایک بار پھر گھمبیر صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔