1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

کیا میں کولیگز سے کورونا ویکسین کا پوچھ سکتا ہوں؟

12 جون 2021

کووِڈ لاک ڈاؤن اب دنیا بھر میں نرم ہوتے جا رہے ہیں اور ایک بار پھر لوگ ہوم آفس کی بجائے اپنے دفاتر اور کام کی جگہوں کا رخ کر رہے ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اپنے کولیگز سے ویکسین کا پوچھا جا سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/3undT
Einreise EU | Covid-19: Airport Corona Testing
تصویر: Zumapress/picture alliance

ژون امریکی ریاست ورجینیا میں مقامی حکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔ چالیس سالہ ژون رواں برس اپریل میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں  لگوا چکے ہیں۔ ان کے زیادہ تر کولیگز بھی ویکسین لگوا چکے ہیں، تاہم انہیں کیسے معلوم ہو کہ کسے ویکسین لگ چکی ہے اور کسی نہیں؟

"مجھے لگتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ انفارمیشن رضاکارانہ طور پر دیتے ہیں، حالاں کہ بعض اوقات ہمیں پوچھنے کا حق بھی نہیں ہوتا۔"

دنیا بھر میں کام کی مختلف جگہوں پر کورونا ویکسین لگوانا ایک عمومی سا سوال بن گئی ہے۔ "کیا آپ نے کورونا ویکسین لگوا لی؟" اور "کون سی"؟  ان دِنوں گفتگو کے یہ ابتدائی جملے بن چکے ہیں۔

امریکا دنیا کو آٹھ کروڑ کووڈ ویکسین عطیہ کرے گا

عالمی ادارہٴ صحت نے ایک اور چینی ویکسین کی منظوری دے دی

جرمنی میں ویکسینیشن کا آغاز دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں خاصا سست دیکھا گیا۔ بہت سے لوگ اب تک ویکسین کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ شمالی جرمن شہر بریمن میں قائم فرائٹ فارورڈ تنظیم سے وابستہ ٹیکلا کہتی ہیں، "ہماری ٹیم میں قریب سب کو پتا ہے کہ کس کس کو ویکسین لگ چکی ہے اور کسے کون سی ویکسین لگی ہے۔"

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خود تو اب تک ویکسین نہیں لگوا پائیں مگر اب انہیں اپوائنٹمنٹ مل چکی ہے اور وہ آئندہ ہفتے میں ویکسین لگوا لیں گی۔

ان کے مطابق امیونائزشن سے متعلق ادھر ادھر کی نہ ختم ہونے والی بحث اب پرانی باتی ہے۔ انہیں اپنا ویکسینیشن اسٹیٹس اپنے ساتھیوں سے شیئر کرنے میں کوئی عار نہیں۔ وہ کہتی ہیں، "جہاں تک پرائیوسی کا تعلق ہے، میرے خیال میں یہ سوال کہ کیا میں ویکسین لگوا چکی ہوں، پوچھے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔"

وبا نجی طبی کوائف چھپانا مشکل بناتی ہے؟

جرمنی میں اس حوالے سے ضوابط واضح نہیں کہ کہ کون یہ سوال پوچھ سکتا ہے۔ جرمنی میں ایسوسی ایشن آف جرمن کمپنی فزیشنز کے صدر ڈاکٹر وولف گانگ پانٹر کے مطابق، "آپ کے باس کو نہ تو یہ حق ہے کہ وہ کہے کہ آپ ویکسین لگوائیں اور نہ ہی اسے یہ حق ہے کہ پوچھے کہ کیا آپ کو ویکسین لگ چکی ہے۔"

یعنی افسران بالا اپنی کمپنی کے ڈاکٹر سے بھی پوچھ نہیں سکتے کہ کس ملازم نے ویکسین لگوائی اور کس نے نہیں لگوائی۔ کورونا وائرس نے گو کہ دنیا بھر میں ایک ہنگامی حالت پیدا کر دی ہے، تاہم نجی کوائف کے تحفظ کے بنیادی قوانین کم از کم جرمنی میں لوگوں کے لیے نہیں بدلے۔

’امید ہے پاکستان میں بھارت جیسی صورت حال نہیں ہو گی‘

 پانٹر کے مطابق، "تمام ڈاکٹر بہ شمول کمپنی ڈاکٹر اب بھی طبی حوالے سے نجی کوائف کے تحفظ کے پابند ہیں۔ وبا نے اس بنیادی ضابطے کو متاثر نہیں کیا۔"

پانٹر نے مزید کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت آپ ہی کے ڈیسک کے دوسری جانب بیٹھنے والا کوئی کولیگ آپ سے یہ دریافت کرنے کا حق رکھتا ہو۔ یعنی اگر آپ اپنا ویکسینیشن اسٹیٹس ظاہر نہیں کرنا چاہتے، تو آپ کو حق حاصل ہے کہ ایسے کسی سوال کا جواب نہ دیں۔ یہ بات تاہم الگ ہے کہ لوگ رضاکارانہ طور پر ہی اپنا ویکسینیشن اسٹیٹس ظاہر کر دیتے ہیں۔

ویکسین کے لیے دوستانہ مقابلہ بازی

برسلز میں ایک کمیونیکشن ایجنسی کے لیے کام کرنے والی 33 سالہ ڈورس خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انہیں ویکسین لگ چکی۔ وہ کہتی ہیں کہ کووِڈ ویکسین کا موضوع کولیگز کے مشترکہ چیٹ گروپ میں آتا رہتا ہے، تاہم وہ اب تک آفس میں ملے نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کولیگز کے درمیان اس معاملے پر ایک طرح سے فرینڈلی کمپیٹیشن (دوستانہ مسابقت) ہے کہ کسے پہلے ویکسین لگے گی۔

کارلا بلائیکر، )ع ت، ع ح(