1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملازمت کی جگہ پر اسکارف، یورپ منقسم

عاصم سلیم
15 مارچ 2017

ملازمت کی جگہوں پر کسی مذہب کی عکاسی کرنے والے لباس يا ملبوسات پر پابندی سے متعلق يورپی عدالت برائے انصاف کے حاليہ فيصلے پر مختلف حلقوں سے ملے جھلے رجحانات سامنے آ رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2ZDnK
Symbolbild - Kopftuch am Arbeitsplatz
تصویر: picture-alliance/Keystone/J. Zick

يورپی عدالت کے فيصلے کے حاميوں کا کہنا ہے کہ فيصلے کا اطلاق تمام مذاہب پر ہوتا ہے تاہم ناقدين کا نظريہ ذرا مختلف ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم ادارے ايمنسٹی انٹرنيشنل اس بارے ميں جاری کردہ ايک بيان ميں کہا، ’’ايک ايسے وقت ميں کہ جب لوگوں کی شناخت اور ظاہری شخصيت ايک سياسی موضوع بن چکا ہے، ايسے ميں لوگوں کو امتيازی سلوک و نسلی بنياد پر تعصب سے زيادہ تحفظ درکار ہے۔‘‘ يورپی سطح پر سرگرم متعدد مسلم تنظيموں کے علاوہ جرمنی کے پروٹيسٹنٹ چرچ نے بھی يورپی عدالت برائے انصاف کے فيصلے کو غلط قرار ديا ہے۔

ايک روز قبل چودہ مارچ کو ہونے والی پيش رفت ميں يورپی عدالت برائے انصاف نے يہ فيصلہ سنايا تھا کہ نجی کمپنيوں کو يہ اختيار حاصل ہے کہ وہ مخصوص صورت حال ميں اپنے عملے کو سر ڈھکنے يا ’اسکارف‘ کے استعمال سے روک سکيں۔ عدالتی فيصلے کے زمرے ہر ايسا لباس يا ملبوسات شامل ہيں، جو کسی مذہب کی عکاسی کرتے ہوں۔ يورپی سطح پر اس کافی نازک معاملے پر يہ اپنی طرز کا پہلا فيصلہ ہے۔

لکسمبرگ ميں دو ججوں نے دو مختلف کيسوں کی سماعت کے دوران يہ فيصلے سنائے۔ پہلے کيس ميں عدالت نے فيصلہ کيا کہ بيلجيم ميں ايک کمپنی نے مسلمان خاتون ريسپشنسٹ کو برطرف کرتے ہوئے امتيازی سلوک کا مظاہرہ نہيں کيا۔ متعلقہ کمپنی نے اپنے قوانين ميں واضح کر رکھا تھا کہ صارفين کے ساتھ براہ راست رابطے ميں رہنے والے ملازمين کے ليے مذہب يا کسی سياسی نظريے کے عکاس ملبوسات يا لباس پہننے پر پابندی عائد ہے۔ اسی طرح فرانس ميں سامنے آنے والے ايک کيس ميں انجينيئر عصما بوگنونی کو سر ڈھکنے کے سبب ايک صارف کی شکايت پر نکال ديا گيا۔ عدالت نے فيصلہ سنايا کہ اس کيس ميں متعلقہ سافٹ ويئر کمپنی ممکنہ طور پر امتيازی سلوک کی مرتکب ہوئی۔

جرمنی میں بھی پورے چہرے کے نقاب پر پابندی کے مطالبے

يہ ايک ايسا معاملہ ہے جس پر يہودی مذہبی رہنما بھی مسلمانوں کے ساتھ آن کھڑے ہوئے۔ کئی يورپی يہودی ربيوں نے کہا ہے کہ عدالت کے فيصلے سے نفرت پر مبنی جرائم کو تقويت حاصل ہو گی۔ اسی طرح ’اوپن سوسائٹی جسٹس انيشی ايٹو‘ نامی ايک گروپ نے کہا ہے کہ يہ فيصلہ برابری کے عنصر کو کمزور کرتا ہے۔

دوسری جانب يورپ ميں کئی قدامت پسند حلقوں ميں يورپی عدالت برائے انصاف کے فيصلے کی تائيد بھی کی گئی ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے يورپی پارليمان کے قدامت پسند رکن مانفريڈ ويبر کے بقول يہ فيصلہ يورپی طور طريقوں کا دفاع کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کمپنيوں کو يہ اختيار ہونا چاہيے کہ وہ ملازمت کی جگہوں پر مخصوص صورت حالوں ميں ’اسکارف‘ پر پابندی لگا سکيں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید