’مغربی پروٹیکٹوریٹ بننے کی طرف گامذن‘
17 اکتوبر 2015یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ افغانستان اپنے ملکی استحکام اور سلامتی کا بوجھ خود اپنے کاندھوں پر اُٹھانے کا اہل نہیں۔ تجزیہ کار، افغان فوج کے اراکین اور خود افغان اپنے ملک سے مغربی فورسز کے بتدریج انخلاء کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے ملک کو دوبارہ طوائف الملوکی کی طرف گامزن ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
دوسری طرف، 2014 ء میں افغانستان سے آئی سیف کے مشن کے اختتام کے بعد سے سفارتکار اور افغان سیاستدان اس امر کا یقین دلانے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں کہ افعان عوام اور فوج ملک کو مستحکم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی بار بار دہرا چُکے ہیں کہ ان کے ملک کو ’نیٹو کے فولو اپ مشن‘ میں محض عسکری مشاورت کی ضرورت ہوگی۔
اگر افغانستان کی صورتحال کے حقائق پر نگاہ ڈالیں تو ان دونوں دھڑوں کے موقف میں سے کسی ایک کو صحیحح سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ 14 برس قبل افغاستان سے طالبان حکومت کی پسپائی کے بعد سے رواں برس یعنی 2015 ء اب تک کا خونریز ترین سال ثابت ہوا۔ بنیاد پرست مسلمان افغانستان کے مختلف صوبوں میں دوبارہ سے کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف دنیا نے دھیان بہت دیر بعد دیا ہے۔
اس بارے میں مغرب کو جذباتی طور پر بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ برلن کے لیے یہ لمحہ اُس وقت آ گیا جب قندوز پر حملہ ہوا۔ یہ وہ علاقہ ہے جو جرمن فوج کے کنٹرول میں گزشتہ برس تک تھا۔ امریکا عراق اور افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا خمیازہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا ’آئی ایس‘ کے جنم لینے کی صورت میں بھگت رہا ہے اور یورپ کو مہاجرین کے سیلاب کا سامنا ہے۔
ڈوئچے ویلے کے فلوریان وائیگنڈ امریکی صدر باراک اوباما کے افغانستان میں اپنی فوج کو 2016 ء کے بعد بھی تعینات رکھنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہیں،’’ اوباما کا یہ فیصلہ دُرست ہے۔ مغرب کو اُس خطے میں امن و سلامتی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہییں۔ یہ نہ صرف افغان باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اہم ہے بلکہ یہ خود مغربی ممالک کی سلامتی اور سیاسی مفادات میں ہے۔ لیکن اوباما کا یہ فیصلہ بہت دیر سے سامنا آیا ہے۔ افغانستان سے موصول ہونے والی ہولناک پُر تشدد کہانیاں ایک عرصے سے صدر اوباما کو یہ موقع فراہم کر رہی تھیں کہ وہ اپنے فیصلوں سے افغان عوام کے دل جیت لیں۔
آئندہ کیا ہوگا؟ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کی مدت میں توسیع کے اوباما کے وعدہ کے پیچھے کسی جامع حکمت عملی کا ہاتھ نظر نہیں آتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان میں آئی سیف مشن کا براہ راست تعلق جنگ سے تباہ حال اُس ملک کی تعیمر نو، وہاں ایک فعال جمہوریت کے قیام اور افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں سے ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جانا تھا کہ افغان اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکیں اور دہشت گردوں کو دوبارہ اس ملک میں پاؤں جمانے نہ دیں تاہم یہ تمام کوششیں ناکام ہو چُکی ہیں۔ حالات اب کہیں زیادہ خراب ہو چُکے ہیں۔ ‘‘