1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معاہدہ شینگن کے نفاذ کو پندرہ برس ہو گئے

26 مارچ 2010

یورپی یونین کےمعاہدہ شینگن کے نفاذ کےجمعہ کےروز پندرہ برس مکمل ہو گئے۔ اب ایسے غیر ملکیوں کو بھی معاہدے میں شامل ریاستوں تک آزادانہ سفر کی اجازت ہےجو کسی رکن ملک میں تین ماہ سے زائد عرصے تک قیام کا اجازت نامہ رکھتےہوں۔

https://p.dw.com/p/Meu7
سماجی امدادی تنظیم Payoke کی سربراہ پیٹسی سوئرینسنتصویر: Patsy Sorenson, Payoke

ایسے غیر ملکی اب شینگن زون کے قومی سرحدوں سے پاک پورے علاقے میں بلا روک ٹوک سفر کر سکتے ہیں۔ لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد سے ان خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہ اس سفری سہولت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔

Patsy Sörensen ایک ایسی سماجی کارکن ہیں جن کی تنظیم کا صدر دفتر بیلجیئم کے بندرگاہی شہر Antwerp میں ہے۔ وہ گزشتہ بیس برسوں سے ایسے افراد کی انتہائی غربت اور استحصال کے ماحول سے نکلنے میں مدد کر رہی ہیں، جو مختلف یورپی ملکوں میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے مجرموں کے شکار بن جاتے ہیں۔

Opfer der sexuellen und wirtschaftlichen Ausbeutung lernen bei Payoke in Antwerpen einen Afrikanischen Tanz
’’لوگ اکثر مہینوں بلکہ کبھی کبھی تو سالوں تک بغیر کسی چیکنگ کے اس پورے خطے میں مقیم رہتے ہیں اور سفر کرتے رہتے ہیں۔‘‘تصویر: Patsy Sorenson, Payoke

وہ کہتی ہیں کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے زیادہ تر مجرم تین ماہ کے ویزے پر یورپ آتے ہیں اور جعلی دستاویزات کے ذریعے اپنی مجرمانہ کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔

پیٹسی سوئرینسن کے بقول ایسے جرائم پیشہ گروہ سفری سہولیات سے متعلق شینگن سسٹم کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انہیں اپنے پکڑے جانے کا بھی کوئی خوف نہیں ہوتا۔

پیٹسی سوئرینسن کہتی ہیں: ’’عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ لوگ شینگن زون میں شامل کسی ملک میں آتے ہیں، باقاعدہ قانونی کاغذات کی بنیاد پر۔ مثال کے طور پر کوئی ورک پرمٹ یا سٹوڈنٹ ویزا لے کر۔ لیکن شینگن زون میں انسان کسی بھی ملک میں آسانی سے جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر مہینوں بلکہ کبھی کبھی تو سالوں تک بغیر کسی چیکنگ کے اس پورے خطے میں مقیم رہتے ہیں اور سفر کرتے رہتے ہیں۔‘‘

پیٹسی سوئرینسن جس سماجی امدادی تنظیم کی سربراہ ہیں، اس کا نام Payoke ہے۔ یہ تنظیم جنسی اور معاشی استحصال کے شکار ایسے مردوں، خواتین اور بچوں کی مدد کرتی ہے، جنہیں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے نیٹ ورک یورپ لاتے ہیں، اور جنہیں ایسے منظم گروہوں کی طرف سے مسلسل بدسلوکی کا سامنا رہتا ہے۔

Belgischer König besucht Payoke eine Nichtregierungsorganisation in Antwerpen
اس این جی او کی بیلجیئم کے بادشاہ سے ملاقات کی ایک تصویرتصویر: Patsy Sorenson, Payoke

Payoke کی سربراہ کہتی ہیں کہ ایسے متاثرین کا تعلق صرف ایشیا یا افریقہ سے ہی نہیں ہوتا، بلکہ ان میں مشرقی یورپی ملکوں کے شہری بھی شامل ہوتے ہیں۔

’’مغربی یورپی ملکوں میں ایسے استحصال شدہ افراد میں بلغاریہ اور رومانیہ کے شہری بھی شامل ہوتے ہیں، حالانکہ وہ خود بھی یورپی یونین کے شہری ہیں۔ اب ایشیائی ملکوں سے آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد بھی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر تھائی لینڈ سے آنے والوں کی۔ بلغاریہ سے لائے جانے والے زیادہ تر غیر ملکی شینگن ریاستوں میں تعمیراتی شعبے میں کام کرتے ہیں۔‘‘

یورپی یونین کا کمیشن یونین کے عام شہریوں کے لئے سہولت کی خاطر متعارف کرائے گئے اس نظام کے غلط استعمال سے آگاہ ہے۔ اسی لئے شینگن معاہدے میں شامل ملکوں کے درمیان غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق اشتراک عمل مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی Frontex کے اختیارات میں اضافے اور اس کی کارکردگی کو زیادہ مؤثر بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

رپورٹ : مقبول ملک

ادارت : کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں