1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصنوعی ذہانت: کمپیوٹر خود ’’سوچنا‘‘ سیکھیں گے

18 ستمبر 2009

جرمنی کی پاڈربورن یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں 23 ممالک سے آئے ہوئے 260 محققین شریک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/JjFq
تصویر: AP

ابھی سائنس فکش فلموں میں حقیقت سے بہت آگے کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں کمپیوٹرز کی مصنوعی ذہانت میں بہت بڑی پیشرفت دیکھنے میں آئے گی۔ پاڈربورن یونیورسٹی کے الیکٹرو تکنیک، انفارمیٹک اور میتھیمیٹکس شعبے سے وابستہ بیربل میرچنگ نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’کمپیوٹر نظام خود بخود نئی نئی چیزیں سیکھ سکیں گے اور اُنہیں انسانوں پر مزید انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘ یہ نئی ٹیکنالوجی خاص طور پر انٹرنیٹ سرچ انجنوں اور آفت زدہ علاقوں میں بچاؤ کے شعبے میں استعمال کئے جانے والے روبوٹس میں نظر آ سکے گی۔

Screenshot der neuen Suchmaschine Bing von Microsoft
سرچ انجن بھی جدت کی طرف گامزنتصویر: AP

انٹرنیٹ سرچ انجن ابھی سے اِس قابل ہو چکے ہیں کہ وہ کسی لفظ کے ابتدائی حروف ٹائپ ہوتے ہی متعلقہ کلیدی لفظ کو جان جاتے ہیں۔ سائنسدان اب ایسے طریقے تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں کہ انٹرنیٹ میں کوئی چیز ڈھونڈنے کے لئے آئندہ کلیدی الفاظ ٹائپ کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ میرچنگ نے بتایا:’’جب آپ کسی سرچ انجن کو ناریل کے پیڑوں، ساحل اور سمندر کی کوئی تصویر دکھائیں گے تو سرچ انجن خود بخود تصویر کا موضوع پہچان لے گا اور آپ کو ملتی جلتی تصویریں ڈھونڈ کر پیش کر دے گا۔‘‘ اپنے اِس طرح کے آئیڈیاز کو بازار میں لانے کے لئے ’’مصنوعی ذہانت کے جرمن تحقیقی مرکز‘‘ کے محققین بڑی کمپنیوں اور سرچ انجنوں کے منتظم اداروں کے ساتھ قریبی اشتراکِ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Deutschland Terro Sicherheit Online Durchsuchung
کمپیوٹرز کی بڑھتی ہوئی ’’خود انحصاری‘‘ کی ایک بڑی وجہ محققین کا بدلا ہوا طریقہء کار ہےتصویر: AP

میرچنگ نے اُمید ظاہر کی کہ چند ہی برسوں میں آفت زدہ علاقوں میں ایسے روبوٹس استعمال میں لائے جانے لگیں گے، جو ایک طرح سے خود ہی ’’سوچ ‘‘ سکیں گے۔ یہ روبوٹس ملبے اور راکھ میں سے اپنا راستہ خود تلاش کر سکیں گے۔ یہ کمپیوٹر مشینیں مختلف طرح کے حساس آلات مثلاً تھرمل کیمروں سے لیس ہوں گی۔ اِس طرح کے کیمروں کی مدد سے یہ روبوٹس کسی جائے حادثہ پر آسانی سے متاثرین کو ڈھونڈ نکالیں گے۔

اب تک کمپیوٹرز میں ماہرین کی سطح کا تمام تر علم اور معلومات ذخیرہ کر دی جاتی تھیں تاہم آج کے محققین وہ طریقہ استعمال کر رہے ہیں، جس کی مدد سے نومولود بچے اور کم سن بچے نئی نئی چیزوں کے بارے میں سیکھتے اور جانتے ہیں۔ میرچنگ نے بتایا کہ بچے اپنے حواس کی مدد سے بتدریج اپنے ماحول کو جانتے ہیں اور پتا چلاتے ہیں کہ مختلف صورتوں میں اُن کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ مستقبل کے کمپیوٹرز بھی اِسی طریقے سے چلیں گے اور خود پر لگے سینسرز یا حساس آلات سے وہی کام لیں گے، جو بچے اپنے حواسِ خمسہ سے لیتے ہیں: ’’مستقبل کے ان کمپیوٹرز کو شروع میں محض محدود معلومات فراہم کی جائیں گی، باقی کا علم وہ بتدریج خود سیکھیں گے۔‘‘

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں