1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ میں امن کوششیں

23 دسمبر 2008

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل فلسطین تنازعے کے علاوہ اسرائیل اور شام کے درمیان بھی امن بات چیت کا سلسلہ بالواسطہ طور پر جاری ہے۔ ترکی دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/GLdw
شمالی غزہ پٹی پر فلسطینی نوجوانوں کے ہاتھوں میں فلسطینی پرچمتصویر: AP

مشرق وسطیٰ میں گزٹشتہ جمعہ کو اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدے کے اختتام کے بعد کی صورت حال پر عرب دنیا سمیت دیگر ملکوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اگر مصر ثاثلثی کرنا چاہتا ہے تو شام اسرائیل کے درمیان امن کوششوں کو فروغ دینےکے سلسلے میں ترکی متحرک ہے۔

Israel Premier Ehud Olmert und Aussenministerin Tzipi Livni
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمیرٹ اپنی وزیر خارجہ سپی لیونی کے ہمراہتصویر: AP

کروشیا کے دورے پر گئے شام کے صدر بشار الاسد نے میزبان صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کا عندیہ دے کر بالواسطہ مذاکرات کے جاری عمل میں مزید پیش رفت کے امکانات کو واضح کردیا ہے۔ شامی صدر نے امن مذاکرات کی تشریح فلسفیانہ انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عمارت کی تعمیر کی طرح ہوتے ہیں اور جس میں مضبُوط بنیاد انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ بشار الاسد کے مطابق براہ راست مذاکرات کی بنیاد بالواسطہ مذاکرات کی کامیابی پر ہے۔ ترکی کی ثالثی میں ہونے والے شام اسرائیل مذاکرات کے چار دور ہو چکے ہیں مگر سمتبر میں ہونے والے پانچویں دور میں تعطل پیدا ہو گیا تھا۔

Erdogan in Damaskus mit Syriens Präsident Bashar Assad
شامی صدر بشار الاسد (دائیں) اور ترک وزیر اعظم رجب ظیب ایردوہانتصویر: AP

ترکی کے دورے پر گئے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمیرٹ کے ایجنڈے پر اور بہت ساری معاملات بھی ہو سکتے ہیں لیکن بالواسطہ مذاکرات کو بھی خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔ اِس موقع کی مناسبت سے غزہ پٹی پر حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ نے بھی ترک صدر عبد اُللہ گُل اور وزیر اعظم رجب طیب ایردوہان سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم سے گفتگو کے دوران کہیں کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرے۔

اِس مناسبت سے حماس کی جانب سے اعلان بھی سامنے آ یا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں کے لئے جنگ بندی کر رہے ہیں۔ حماس کی جانب سے اِس میں مصر کی ثالثی کا ذکر ہے مگر قاہرہ نے اِس کی کوئی بڑی پذیرائی نہیں کی ہے۔ اِسی طرح اسرائیل کے حکومتی حلقے بھی جنگ بندی کے حوالے سے مصر کے متحرک ہونے کی تصدیق نہیں کر رہے۔ جنگ بندی کے اعلان کی تصدیق انتہاپسند تنظیم حماس کے سینئر کارکن ایمن طہٰ نے کی ہے۔ دوسری جانب مصر سے غزہ میں امدادی خوراک کی کھیپ بھی پہنچنے والی ہے۔ یہ امداد غزہ سے باہر رُکی ہوئی ہے۔

Treffen Abbas und Hanija in Gaza
غزہ پٹی پر انتہاپسند تنظیم حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ (بائیں) فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھتصویر: AP

حماس سمیت دوسری انتہاپسند تنظیموں کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر راکٹ اور مارٹر گولے داغنے اور جواباً اسرائیل کی جانب سے ممکنہ بڑی کاروائی کے حوالے سے اسرائیل نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ایکشن کی ضرورت کے حوالے سے سفارتی کوششوں کا بھی آغاز کردیا ہے۔

حماس کی جانب سے نئے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے آمادگی کے اظہار پر اِس بات کے قوی امکانات ہیں کہ موجودہ صورت حال پر بات کرنے کے لئے اسرائیلی وزیر خارجہ سپی لیونی پرسوں جمعرات کو مصری صدر حسنی مبارک کی دعوت پر قاہرہ پہنچ سکتی ہیں۔

اگر حماس اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا کوئی نیا معاہدے عمل میں نہیں آتا تو حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں کیونکہ اسرائیی فوج کے سابق چیف اور موجودہ وزیر دفاع ایہود باراک نے اپنی فوج کو ممکنہ ایکشن کے لئے پلان تیار کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔