1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ تنازعہ :اومابا کی دعوت اور عربوں کا ردعمل

6 ستمبر 2009

عرب دنيا میں اس بارے ميں بحث جاری ہے کہ امريکی صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ کی پاليسی کے سلسلے ميں کيا ردعمل ظاہر کيا جائے۔ واشنگٹن عربوں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ اسرائيل کے ساتھ اعتماد پيدا کرنے والے اقدامات کريں۔

https://p.dw.com/p/JT5y
باراک اوباما یروشلم میں یہودیوں کے مقدس مقام پرعبادت کے دوران۔فائل فوٹوتصویر: AP

عرب دنيا ميں يہ انديشہ پايا جاتا ہے کہ اس طرح غيرمحسوس طور پراسرائيل کے ساتھ توان کے تعلقات معمول پر آجائيں گے ليکن اسرائيل پھر بھی عرب علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھے گا۔ سعودی وزير خارجہ نے بالکل دوٹوک بات کی اور کہا کہ چھوٹے اقدامات سے امن قائم نہيں ہوسکتا ہے اور نہ ہی اچھی نيت کے مظاہرے سے۔ تاہم، امريکی صدراوباما، عربوں سے يہی مطالبہ کررہے ہيں کہ وہ فلسطينی علاقوں ميں يہودی بستيوں کی تعمير روکنے کے بدلے ميں ايک تعميری جواب کے طور پر اسرائيل کے لئے نيک نيتی کے اظہار کے اقدامات کريں۔ عرب ملکوں کے حکمران اور صدور اب کئی ہفتوں سے اس بارے ميں غور کررہے ہيں کہ امريکی صدر کے مطالبے کا کيا جواب دیا جائے۔

بحرين کے ولي عہد نے واشنگٹن پوسٹ ميں شائع ہونے والے ايک مضمون ميں لکھا ہے کہ اسرائيليوں کے ساتھ اچھی طرح سے مکالمت نہيں کی گئی ہےاورانہيں عربوں کی امن پيشکش کا قائل کرنے کے لئے کافی کوشش نہيں کی گئی ہے۔عربوں کی امن پيشکش ميں کہا گيا ہے کہ اگر اسرائيل مقبوضہ عرب علاقے خالی کردے، ايک فلسطينی رياست قائم کردی جائےاور فلسطينی مہاجرين کے مسئلے کا ايک منصفانہ حل نکال ليا جائے توتمام عرب دنيا اسرائيل کے ساتھ معمول کے مطابق تعلقات قائم کرلے گی اورامن قائم ہوجائے گا۔

Palästinenser Israel Siedung Bau in Westjordanland
مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری کا معاملہ ابھی تک مسلہ بنا ہوا ہےتصویر: AP

ابو ظبی کے اخبار The National کے حکيم نے کہا ہے: ’’ چاہے يہودی بستيوں کی تعمير بند کرنے کے صدر اوباما کے مطالبے کا اثراسرائيل پر ہو يا نہ ہو تاہم امريکی صدر کے لئے يہ کام آسان ہوجائے گا اگر وہ کانگريس کو دیکھا سکيں کہ اسرائيل پر دباؤ کے بدلے میں انہيں عربوں سے کچھ حاصل ہوا ہے‘‘۔

اس سلسلے ميں عرب ملکوں ميں اسرائيل کی فضائی کمپنی ال ايل کوعرب علاقوں پر پرواز کی اجازت دينے اور تجارتی دفاتر کھولنے پر غور کيا جارہا ہے تاہم عمان کے صحافی معين ربانی نے خبردار کيا ہے کہ اس وقت اسرائيل کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کے آغاز کا مطلب خود اپنی امن پيشکش کی قدروقيمت کو کم کرنا ہے۔ انہوں نےکہا: ’’ شروع ميں اوباما يہ چاہتے تھے کہ اگر اسرائيل يہودی بستيوں کی تعمير روک دے تب عرب اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کريں۔ ليکن اب يہ کہا جارہا ہے کہ اگر اسرائيل صرف جزوی طور پر اور عبوری مدت کے لئے ہی ان بستيوں کی تعمير روک دے تو پھربھی عرب تعلقات کو معمول پر لانے کے اقدامات شروع کرديں۔ اگر ميں ايک اسرائيلی سياستدان ہوتا تو ميں يہ سوچتا کہ عربوں کو کچھ دينا تو حماقت ہے کيونکہ وہ تو کچھ ملے بغيرہی اسرائيل کےساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ابتدا کرنے پر تيار ہيں‘‘۔

عرب يہ سمجھتے ہیں کہ صدر اوباما، اپنے پيش رو بش کے برعکس امن کے قيام کے بارے ميں نيک نيت ہيں ليکن وہ ماضی کے تجربات کے باعث مشکوک ہيں۔ وہ اسرائيل کی طرف سے ٹھوس اقدامات ديکھنا چاہتے ہيں، مثلاً مقبوضہ عرب علاقوں کی واپسی۔

رپورٹ: کارسٹن کيون ٹوپ / شہاب احمد صديقی

ادارت: عاطف بلوچ