1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسافر طیارے کی تباہی: لاشیں کراچی پہنچنا شروع

29 جولائی 2010

جمعرات کی صبح چار بجے کراچی کے قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا ایک طیارہ جیسے ہی رن وے پر اترا، کارگو ٹرمینل پر بہت سے لوگوں کی دبی دبی سسکیاں بلند آواز آہ وفغاں میں تبدیل ہوگئیں۔

https://p.dw.com/p/OXUj
اسلام آباد کے ایک ہسپتال سے ایئر بلیو کے ایک مسافر کی میت باہر لائی جا رہی ہےتصویر: AP

پی آئی اے کی اس پرواز کے ذریعے اسلام آباد کے نواح میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہونے والے ایئر بلیو کے ایک مسافر ہوائی جہاز میں سوار افراد میں سے تین کی لاشیں کراچی لائی گئی تھیں۔

Pakistan Flugzeug Absturz Air Blue
مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایئر بلیو کے تباہ شدہ طیارے کا ملبہتصویر: AP

کراچی سے اسلام آباد جانے والے اس طیارے کی تباہی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ان افراد کی لاشیں باقی بہت سے ہلاک شدگان کی لاشوں کے مقابلے میں قابل شناخت تھیں۔ اسی لئے وہ فوری طور پر تدفین کے لئے ان کے لواحقین کو بھجوا دی گئیں۔ ان میں سے دو لاشیں فیصل رشید اور آصف رشید نامی دو بھائیوں کی تھیں اور تیسری ایک ایسی نوجوان خاتون کی، جس کی ابھی حال ہی میں شادی ہوئی تھی، جس کا نام عائشہ آصف تھا اور جس کے اسی حادثے میں ہلاک ہو جانے والے شوہر آصف شہزاد کی لاش کی تاحال شناخت نہیں کی جا سکی۔

کراچی ایئر پورٹ کے کارگو ٹرمینل پر ان ہلاک شدگان کے لواحقین کے رنج و الم کو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ دونوں بھائیوں کی لاشیں وصول کرنے کے لئے آنے والے ان کے اہل خانہ غم سے نڈھال تھے لیکن پھر بھی ایک دوسرے کو تسلی دینے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ان سوگواروں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ فیصل رشید اور آصف رشید کا بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن قسمت نے انہیں اس طیارے میں سوار کرا دیا۔

Pakistan Flugzeug Absturz - Angehörige
ہلاک شدگان کے چند سوگوار لواحقین ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے ہوئےتصویر: picture alliance / dpa

اپنی مہندی کے رنگ پھیکے پڑنے سے پہلے ہی جاں بحق ہو جانے والی دلہن عائشہ کے گھر والوں کا غم بھی ناقابل برداشت تھا۔ عائشہ کے ایک بھائی کا کہنا تھا کہ ان کے گھرانے پر شادی کی خوشیوں کے فوراﹰ بعد غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔

کراچی میں یوتھ پارلیمنٹ سے تعلق رکھنے والے چھ نوجوان بھی اسی شہر کے باسی تھے۔ ان کے اہل خانہ بھی شدید غم کا شکار ہیں۔ ان نوجوانوں کی لاشوں کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی۔ نوجوانوں کے اس وفد میں شامل ایک لڑکی رباب کے والد نے اپنی بیٹی کی طرف سے ایئربلیو کی حادثے کا شکار ہو جانے والی پرواز کی کراچی سے روانگی سے چند ہی لمحے قبل رباب کا ارسال کردہ وہ ایس ایم ایس پیغام بھی ڈوئچے ویلے کو دکھایا، جس میں اس لڑکی نے اپنی بخیریت روانگی کی اطلاع دی تھی۔

ایئربلیو کی اس پرواز کے بیشتر مسافروں کا تعلق کراچی سے تھا۔ ان ہلاک شدگان کے لواحقین یہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ یہ فضائی کمپنی ان سے تعاون نہیں کر رہی، خاص کر ان ہلاک شدگان کے لواحقین جن کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔

جمعرات کی شام پی آئی اے کا ایک اور طیارہ مزید سات لاشیں لے کر کراچی پہنچ گیا۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہے گا۔ جمعرات کی شام کراچی پہنچنے والی میتوں کی نماز جنازہ ایئر پورٹ پر ہی پڑھی گئی۔

رپورٹ: رفعت سیعد، کراچی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں