1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرغی ہے یا مرغا، انڈے میں تعین

افسر اعوان25 اپریل 2016

ڈریسڈن یونیورسٹی کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنیک پر کام کر رہے ہیں جس میں کامیابی کی صورت میں ہر سال کئی ملین ایسے چوزوں کو بچایا جا سکے گا جنہیں انڈوں سے نکلتے ہیں بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ic6N
دہ انڈوں کے اندر چوزوں کا معائنہ کیا جا رہا ہےتصویر: Reuters/The Roslin Institute, University of Edinburgh/Norrie Russell

انڈوں سے نکلتے ہی چوزوں کو مار دینے کے عمل کی کافی مذمت کی جاتی ہے خاص طور پر جنس کی بنیاد پر۔ مرغوں کو لائیو اسٹ‍اک فارمنگ میں زیادہ فائدہ مند نہیں سمجھا جاتا۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ انڈے نہیں دے سکتے بلکہ ان کا گوشت بھی بہت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔

اس لیے نر چوزوں کو منظم انداز میں مار دیا جاتا ہے۔ بہت سے واقعات میں تو انہیں زندہ ہی مشینوں میں ڈال کر اور کچل کر ہلاک کر دیا جاتا ہے اور انہیں جانوروں کی خوراک میں استعمال کیا جاتا ہے۔

جرمنی کی ڈریسڈن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تجزیاتی کیمسٹ گیرالڈ اسٹائنر اور ان کی ٹیم نئے پیدا ہونے والے نر چوزوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت کو بچانے کے لیے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جس میں انڈوں سے نکلنے سے قبل ہی ان کی جنس کا تعین ممکن ہو سکے گا۔

اسٹائنر اسپیکٹرواسکوپک طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں جس میں خون کی نالیوں پر روشنی ڈال کر اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ وہ اس طریقہ کار سے انڈوں میں موجود ایمبریوز کی جنس کا تعین کر سکتے ہیں۔ اسپیکٹرواسکوپی کو پہلے ہی کینسر کے علاج میں استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے صحت مند اور ابنارمل خلیوں میں تفریق کی جاتی ہے۔ ان کی ٹیم میں شامل رابیرٹا گیلی کہتی ہیں، ’’اگر ہم ایک ٹیومر کا پتہ لگا سکتے ہیں تو پھر جنس کا تعین کیوں نہیں کر سکتے۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پراجیکٹ میں سائنسدانوں کی مختلف ٹیمیں شریک ہیں جن میں انجینیئرز، کیمسٹس اور ماہرین طبیعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں دو پرائیویٹ کمپنیاں بھی شریک ہیں۔

لیبارٹری میں گیلی اور ان کے ساتھی گرِٹ پریوسے اپنی ٹیکنیک کے مظاہرے کے لیے ریفریجریٹر میں محفوظ کیے انڈے نکالتے ہیں۔ ان انڈوں کو تین دنوں کے لیے انکیوبیٹ یا سینچا جا چکا ہے اس وجہ سے ان کے اندر خون کی نالیاں بن چکی ہیں۔ اسٹائنر بتاتے ہیں، ’’مگر اس میں اعصابی خلیے موجود نہیں ہیں، اس لیے انہیں تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘

ماہرین کی اس ٹیم کا موقف ہے کہ اخلاقی طور پر یہ بہت بہتر ہے کہ چوزوں کی جنس کا پہلے سے ہی تعین کر کے ایسے انڈوں کو ہی ضائع کر دیا جائے جن میں نر چوزوں کا پتہ چل جائے۔ بجائے اس کے کہ انڈوں سے چوزے نکل آئیں اور پھر ان کو بے دردی سے ہلاک کر دیا جائے۔

اس طرح کے انڈوں کو مچھلیوں کی خوراک اور شیمپو وغیرہ کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔