1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متبادل نوبل انعام اسرائیلی ڈاکٹروں کی تنظیم کے لئے

6 دسمبر 2010

سن 1980 سے امن کا ايک متبادل انعام بھی ديا جارہا ہے۔ اس سال کا متبادل نوبل انعام آج چھ دسمبر کو اسٹاک ہوم ميں ديا جارہا ہے۔ جب کہ اصل نوبل انعام دس دسمبر کو تقسیم کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/QQr0
ڈاکٹر رُوخاما مارٹنتصویر: picture-alliance/dpa

يہ انعام، نائنجيرنا اوربرازيل کے تحفظ ماحول کے کارکنوں اور ايک نيپالی امدادی تنظيم اور اسرائيلی ڈاکٹروں کی تنظیم کو ديا گيا ہے۔ دولاکھ ڈالر کا يہ متبادل نوبل انعام ايسے افراد کو ديا جاتا ہے جنہوں نے دور حاضر کے سنگين مسائل کا کوئی عملی حل پيش کيا ہو۔

اسرائيل ميں نفسياتی امراض کی ڈاکٹر رُوخاما مارٹن کو اس سلسلے ميں فيصلہ کن ٹيليفون پيغام کوئی تين ماہ قبل موصول ہوا تھا۔ رُوخاما نے بتايا: "جب مجھے متبادل نوبل انعام ديے جانے کی خبر ملی تو ميں دم بخود رہ گئی کيونکہ مجھے اس قسم کے اعزاز کی بڑی قدر ہے اور ميں اس انعام سے واقف بھی ہوں۔" رُوخاما ہميشہ سے ہی خود اپنے طور پر معلومات حاصل کرنے اور ان کی بنياد پر خود اپنی ايک تصوير بنانے کی قائل ہيں۔

جنوری سن 1988 کے آخر ميں، اسرائيلی قبضے کے خلاف پہلی فلسطينی بغاوت يا انتفادہ کے پھوٹ پڑنے کے بعد جب اسرائيلی ذرائع ابلاغ نے فلسطينی بغاوت کے کچلے جانے کی خبريں شائع کيں تو اُنہوں نے ان پر يقين نہيں کيا۔ اس کے برعکس رُوخاما نے غزہ شہر ميں ايک دوست فلسطينی ڈاکٹر حائيدہ عبدالشافی کو فون کيا اور 11 اسرائيلی ساتھی ڈاکٹروں سے پوچھا کہ کيا وہ اُن کے ساتھ غزہ کے شفا ہسپتال جانے پر تيار ہيں تاکہ موقع پر حالات کا جائزہ ليا جاسکے۔ رُوخاما نے کہا: " ہم نے وہاں جو کچھ ديکھا وہ بہت ہی خوفناک تھا۔

مريضوں ميں سے اکثر بچے تھے اور اُن کے بازو اور پير ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان ميں سے بعض سر پر لگنے والی لاٹھيوں کی ضربات سے بے ہوش تھے۔ "جنوری سن1988 کی اسی شام کو رُوخاما مارٹُن اور اُن کے ساتھی ڈاکٹر يہ جان چکے تھے کہ اب وہ کچھ کئے بغير يونہی خاموشی سے اسرائيل واپس نہيں جاسکتے تھے۔ اُنہوں نے مقبوضہ فلسطينی علاقوں کے شہريوں کی طبی ديکھ بھال اور علاج کے لئے ايک تنظيم قائم کر لی۔اس کے ساتھ ہی اس تنظيم نے علاج کے شعبے ميں اسرائيليوں اور عربوں کو يکساں سہولتيں دينے کا مطالبہ کيا۔

Logo Physicians for Human Rights
اسرائیلی تنظیم کا لوگو

غزہ کے دوسرے مريضوں ہی کی طرح 21 سالہ ياسمين کو بھی طبی سہولتوں کے فقدان کی شکايت ہے۔ اُنہوں نے اپنے سادہ سے فليٹ ميں بہت ٹھہرے ہوئے لہجے ميں بتايا کہ گذشتہ برسوں کے دوران کس طرح اُن کی بينائی کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہی ہوگئی۔ انہيں اور اُن کے گھر والوں کو، اب بہتر طبی ديکھ بھال کی اميد صرف اسرائيل کے انسانی حقوق کے حامی ڈاکٹروں کی تنظيم ہی سے ہے۔

اس سال مارچ سے لے کر اکتوبر تک کے درميان ياسمين کو تين بار يہ اطلاع ملی کہ وہ آنکھ کے آپريشن کے لئے اسرائيل جا سکتی تھيں۔ تين بار اُن کے چچا انہيں کار کے ذريعے 40 کلوميٹر دور اسرائيلی سرحدی گذرگاہ ايريس تک لے گئے۔ ياسمين نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظيم نے ان کے لئے اسرائيل ميں داخلے کا اجازت نامہ ليا تھا ليکن اس کے باوجود انہيں تين بار سرحد ہی سے واپس کر ديا گيا۔ بلآخر نومبر ميں انہيں آپريشن کے لئے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ليکن افسوس ہے کہ دو بار آپريشن کے باوجوں ياسمين کی بينائی مزيد خراب ہوگئی۔ اب وہ اکيلی مکان سے باہر تک نہيں نکل سکتيں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ انسانی حقوق کی حامی اسرائيلی ڈاکٹروں کی تنظيم کی مشکور ہيں جس نے اُن کی مدد کی حتی المقدور کوشش کی۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں