1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈ آپریشن: شدید لڑائی جاری

فرید اللہ خان، پشاور7 مئی 2009

ملاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن میں تیزی آگئی ہے۔ سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف توپ خانے کے علاوہ گن شپ ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیارے بھی استعمال کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/HlTs
شمال مغربی علاقوں میں پاکستانی فوج اور شدّت پسندوں کے درمیان لڑائی شدّت اختیار کر گئی ہےتصویر: GFDL / Pahari Sahib

پہلی مرتبہ سوات میں طالبان کے اہم مرکز گھٹ پیوچار پر شیلنگ کی گئی ہے جب کہ طالبان نے تحصیل مٹہ میں پولیس سٹیشن پرحملہ کیا ہے۔ بھاری ہتھیار سے فائرنگ کے تبادلے کے دوران عسکریت پسندوں کے اہم کمانڈر ابن امین کے بھائی ابن عقیل اپنے کئی ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے ہیں۔سیکورٹی فورسز نے مٹہ میں مکمل کرفیو ناذ کردیا ہے۔

اسی طرح ضلع دیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے بڑے صاحبزادے کفایت اللہ ہلاک جب کہ ان کے بہنوئی اور تین سیکورٹی گارڈز شدید زخمی ہوئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کے ردعمل میں عسکریت پسندوں نے بھی سوات اور دیر میں سرکاری املاک کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے۔

Pakistan - Einführung der Scharia
لاکھوں افراد ان علاقوں سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشیدہ علاقوں میں محصور ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

چکدرہ میں پیرا ملٹری فورسز کے ہیڈ کوارٹر پر عسکریت پسندوں نےحملہ کر کے تین سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک جب کہ گیارہ کو یرغمال بنا کر نامعلوم مقام منتقل کر دیا ہے۔

سیکورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن اور عسکریت پسندوں کی کاروائیوں کے بارے میں سابق داخلہ سیکرٹری بریگیڈئیر (ر) محمودشاہ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی کہتے تھے کہ طالبان قبائلی علاقوں تک محدود نہیں رہیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ یہ قبائلی علاقوں سے بندوبستی علاقوں میں کاروائیاں کرتے رہے اور پھر انہوں نے سوات کا رخ کیا جہاں سے دیر اور بونیر تک پھیل گئے۔ ان کا موقف ہے کہ اگرحکومت یہاں پر ان کا راستہ روکنے میں ناکام رہی تو انہیں مزید علاقوں تک پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو آپریشن کے بعد اسی نظام عدل کے تحت لوگوں کو عدالتوں میں لاکر انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے کیوں کہ طالبان علاقے میں بے گناہ لوگوں کا خون بہا چکے ہیں۔

Dreiergipfel Washington
بعض مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستانی سربراہِ مملکت کے امریکہ کے دورے کے موقع پر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن میں تیزی آ گئی ہےتصویر: AP

ضلع سوات میں تختہ بند، گھٹ پیوچار، بلو گرام اور دیگرعلاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے جب کہ طالبان کا مالاکنڈ کے کمشنر اور پولیس افسران کے دفاتر پر بدستور قبضہ ہے۔ مینگورہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شہر پر اب بھی طالبان کا قبضہ ہے۔ سوات سمیت بونیر اور دیر میں بھی سیکورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپیں جاری ہیں جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کاخدشہ ہے۔

ملاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن سے لاکھوں شہری نقل مکانی کرچکے ہیں۔ صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جب کہ اتنی ہی تعدادمیں لوگ نقل مکانی کے منتظر ہیں۔ یہ لوگ کرفیو کی وجہ سے عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان پھنس گئے ہیں۔

دیگر عالمی اداروں کی طرح انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر انسانی بحران کے خدشات کااظہارکیا ہے۔ آئی سی آر سی پشاور کے ترجمان بینو کوچز کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر اب تک ایک لاکھ افراد کو امداد فراہم کرچکے ہیں تاہم شورش کی وجہ سے دور دراز علاقوں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مٹہ اور خوازہ خیلہ میں جھڑپوں کے دوران مرنے والوں کی نعشیں سڑکوں کے کنارے پڑی ہیں تاہم کرفیو کی وجہ سے ان کو کوئی اٹھانے نہیں آسکتا۔