1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماضی میں بدسلوکی بھی ڈپریشن کی وجہ

15 اگست 2011

ڈپریشن کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مریضوں کے ماضی سے بھی واقف ہوں۔ ماضی کے برے واقعات اس بیماری اور اس سے صحت یاب ہونے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12GhT
تصویر: picture alliance/dpa

آج پیر کے روز چھبیس مطالعاتی جائزوں پر مشتمل ایک نئی تجزیاتی رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں 23  ہزار افراد نے حصہ لیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ افراد، جن کے ساتھ بچپن میں ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہوتے ہیں، ان میں عام افراد کی نسبت ڈپریشن کا شکار ہونے کے امکانات دو گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈپریشن دنیا کی سب سے عام اور مہنگی ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔

اس تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ افراد، جو بچپن میں ذہنی دباؤ یا بدسلوکی کا شکار رہتے ہیں، ان کا علاج نفسیاتی طور پر یا پھر دوائیوں کے ذریعے کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کو علاج کے نئے طریقے ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ بچپن میں بدسلوکی کا شکار رہنے والے انسانوں کا علاج جلد از جلد شروع کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔

Symbolbild Depression Trauer
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2020 تک ڈپریشن کو دنیا کی دوسری بڑی بیماری کا درجہ حاصل ہو سکتا ہےتصویر: Fotolia/X n' Y hate Z

کنگز کالج آف لندن میں یہ تحقیق کرنے والی ٹیم کی سربراہ آندریا ڈینس کا کہنا ہے کہ دیرپا ڈپریش کا شکار رہنے والے افراد کی نشاندہی اور علاج صحت عامہ کے نقطہ نظر سے بھی انتہاہی اہم ہے۔ ڈینس کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے شکار افراد کا جلد از جلد علاج شروع کرنے سے صحت سے متعلق اس عالمی مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ دنیا بھر میں ڈپریش کو موت اور معذوری کے ساتھ ساتھ اقتصادی بوجھ کی بھی ایک اہم وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2020 تک ڈپریشن کو دنیا کی دوسری بڑی بیماری کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بیماری برطانیہ میں کسی بھی وقت 10 افراد میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے، جس سے وہ شہری طویل مدت کے لیے بیمار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔

سن 2006 میں شائع ہونے والی ایک دوسری تحقیق کے مطابق برطانیہ اور ویلز میں ڈپریشن کے شکار افراد کے بیمار ہونے کی وجہ سے سالانہ بنیادوں پر کام کے 100 ملین دن ضائع ہو جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس نقصان کی اقتصادی مالیت نو بلین پاؤنڈ بنتی ہے۔

پیر پندرہ اگست کو ایک امریکی تحقیقی جریدے میں شائع ہونے والی اس نئی ریسرچ میں ڈینس کا کہنا ہے کہ بچپن میں بد سلوکی یا پھر زیادتی کا شکار رہنے والے ڈپریشن کے شکار مریضوں میں جینیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ جینیاتی تبدیلیاں ممکنہ طور پر اس سوال کا جواب دے سکتی ہیں کہ ڈپریش کے شکار زیادہ تر افراد کا مؤثر علاج کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ ابھی تک یہ نہیں جان پائیں کہ ایسے مریضوں کا بہت بہتر علاج کس طرح کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: مقبول ملک