1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کے اخراج سے نقصان کیا ہو گا؟

عاطف توقیر روئٹرز
2 جون 2017

اقوام متحدہ کے مطابق پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کے اخراج کی وجہ سے رواں صدی کے اختتام تک زمینی درجہء حرارت میں صفر اعشاریہ تین درجے تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2e2a1
USA Trump zum Pariser Klimaabkommen
تصویر: picture-alliance/AP/dpa/A. Harnik

اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ بدترین صورت میں پیرس معاہدے سے امریکی انخلا زمینی درجہء حرارت میں صفر اعشاریہ تین درجے اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ جمعے کے روز اس عالمی تنظیم کے کرہء ہوائی اور ماحولیات کے شعبوں کے سربراہ ڈیون ٹیربلانچ نے کہا کہ اس سلسلے میں فقط اعداد و شمار ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کیوں کہ زمینی ماحول پر ایسے فیصلوں کے حتمی اثرات جانچنے کا کوئی واضح نظام موجود نہیں۔

جمعے کے روز اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا، ’’اس فیصلے سے زمینی درجہء حرارت مزید صفر اعشاریہ تین درجے بڑھ سکتا ہے۔‘‘

جنیوا میں اپنے ادارہ کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ اندازے بدترین صورت حال کو سوچ کر لگائے گئے ہیں، کیوں کہ لگتا یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

Trump, Paris Abkommen, Climate Change, Karikatur, Elkin, Sergey Elkin
امریکی فیصلے کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے

واضح رہے کہ سن 2015ء میں قریب دو سو اقوام پیرس میں اس عالمی معاہدے پر متفق ہوئی تھیں، جس کے تحت رواں صدی کے اختتام تک زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو دو درجے تک محدود کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کے لیے عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر ضرر رساں گیسوں کے اخراج سے متعلق اہم اور بڑے اقدامات طے ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس معاہدے سے امریکا کے انخلا کے فیصلے کو ’نہایت افسوس ناک‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے زمینی فضا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور عالمی سلامتی کے تحفظ پر ضرب پڑے گی۔

جب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے موسمیات سے وابستہ ٹیربلانچ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے باوجود امریکا دنیا کے ماحول دوست ترین ممالک میں سے ایک رہے گا، ٹرابلانچ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے کے اثرات پیچیدہ ہیں اور ان کا حتمی جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہے۔

’’اس امریکی فیصلے پر ذاتی طور پر مجھے تشویش ہے مگر بہ طور تنظیم ہم زیادہ فکر مند نہیں۔‘‘