1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیٹ ہر فلائی، ضیاء الدین یوسفزئی کے ساتھ ایک ٹویٹر سپیس

22 نومبر 2021

پدرشاہی معاشروں میں ہر وہ عورت خوش قسمت ہوتی ہے، جسے ایسے مرد کا ساتھ میسر ہو، جو اس کی زندگی پر اپنا حق جمانے کی بجائے اسے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے دے۔

https://p.dw.com/p/43Bzl
Pakistanische Friedensnobelpreisträgerin Malala Yousafzai hat geheiratet
تصویر: MALIN FEZEHAI - TWITTER @ MALALA/REUTERS

اسے اپنے خواب پورے کرنے دے اور جہاں اسے اس کی ضرورت پڑے وہاں اس کی مدد کرے۔ جس عورت کو ایسے مرد کا ساتھ میسر آتا ہے، اس کی زندگی دیگر عورتوں کے مقابلے میں قدرے آسان ہو جاتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا شمار ایسی ہی خواتین میں ہوتا ہے۔ ان کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے ان کی زندگی پر اپنا حق نہیں جمایا بلکہ انہیں جینے دیا، جیسے وہ جینا چاہتی تھیں۔ انہیں خواب دیکھنے دیے، جیسے وہ دیکھنا چاہتی تھیں۔ انہیں ان خوابوں کو پورا کرنے دیا، جیسے وہ انہیں پورا کرنا چاہتی تھیں۔

اس کا اثر یہ ہوا کہ سوات کی ملالہ، جو شاید دوسری صورت میں گم نامی کی زندگی گزارنے کے بعد گم نامی کی ہی موت مر جاتی، آج پوری دنیا میں اپنے پہلے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے، جو دنیا میں بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔ آج ملالہ ایک ایسی طاقتور آواز بن چکی ہے، جو دنیا کے ہر بند کواڑ پر دستک دیتی ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کا حق مانگتی ہے۔

ضیاء الدین یوسفزئی نے یہ سب کیسے کیا؟ اس کا جواب انہوں نے اپنی کتاب لیٹ ہر فلائی میں دیا ہے، جو نومبر 2018 میں شائع ہوئی تھی۔ میں کافی عرصے سے یہ کتاب پڑھنا چاہتی تھی، بس موقع نہیں مل رہا تھا۔ پچھلے مہینے آخر کار کتاب پڑھی تو دل میں خواہش جاگی کہ اس پر ضیاء الدین یوسفزئی صاحب کے ساتھ ایک نشست ہونی چاہیے۔

ایک دوست سے ذکر کیا تو وہ بھی پرجوش ہو گئے۔ ہم دونوں ہی ٹویٹر سپیس پر خاصے سرگرم ہیں، جو ٹویٹر کا ایک نیا فیچر ہے۔ ٹویٹر سپیس کے ذریعے ٹویٹر صارفین ایک دوسرے کے ساتھ آواز کے ذریعے بات چیت کر سکتے ہیں۔ ہم نے ضیاء الدین یوسفزئی کو سپیس میں مدعو کرنے کا منصوبہ بنایا اور اگلے ہی دن اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے انہیں ٹویٹر پر پیغام بھی بھیج دیا۔

DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تحریم عظیم، بلاگرتصویر: privat

گرچہ ہمیں جواب آنے کی توقع نہیں تھی۔ ہم پھر بھی ان کے جواب کا انتظار کرتے رہے۔ ہم نے دعوت تو دے دی تھی لیکن پھر سوچ رہے تھے کہ انہیں ایک چھوٹے سے سپیس سیشن میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی؟ ہماری توقعات کے برعکس نہ صرف انہوں نے ہمارا پیغام دیکھا بلکہ اس کے جواب میں ہمارے ساتھ سپیس میں شامل ہونے کی حامی بھی بھر لی۔ ہم نے ان سے دن اور وقت پوچھا تو انہوں نے وہ بھی ہم پر چھوڑ دیا۔ ہم نے مشاورت کے بعد انہیں اگلے ہفتے رات آٹھ بجے کی دعوت دے دی۔

سپیس میں ہمارے پاس پوچھنے کے لیے بہت کچھ اور ان کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ تھا۔ وہ بار بار اپنے زیادہ بولنے پر معذرت کر رہے تھے، جس پر ہم شرمندہ ہو رہے تھے۔ ہم نے انہیں کہا کہ انہیں معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سب انہیں سننے کے لیے ہی وہاں موجود تھے۔

ضیاء الدین یوسفزئی نے ہمیں اس سپیس میں بتایا کہ لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا کیا، جس نے ملالہ کو سوات کی ایک عام لڑکی سے ایک عالمی رہنما بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ان سے کہتا ہوں مجھ سے یہ نہ پوچھیں کہ میں نے کیا کیا؟ مجھ سے پوچھیں میں نے کیا نہیں کیا؟ میں نے اس کے پر نہیں کاٹے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ انہیں کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ انہوں نے بتایا کہ انہیں کتاب لکھنے کی تحریک ملالہ نے ہی دی۔ اس نے ان سے کہا کہ وہ اپنی کہانی کتاب کی صورت میں ضرور چھپوائیں۔ اس کے بعد ہی انہوں نے اپنی کتاب ایک صحافی لوئیس کارپینٹر کے تعاون سے لکھنا شروع کی۔

ان کی کتاب لیٹ ہر فلائی ان کی ہر روز کچھ نیا سیکھنے اور پہلے سے سیکھی ہوئی غلط اقدار کو بھلانے کی کہانی ہے۔ انہوں نے اپنے بچپن میں ہی اپنے اور اپنی بہنوں کے مابین فرق محسوس کر لیا تھا۔ ان کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنی بیوی تور پکئی کے ساتھ ایک ایسے گھر کی بنیاد رکھی، جس میں رہنے والے سب افراد ایک دوسرے کے برابر تھے اور جس میں پدرشاہی رواج اور رویوں کا کوئی گزر نہیں تھا۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ پدرشاہی معاشرے میں ایسا گھر بنانا اور اس کے مکینوں کو پدرشاہی کا شکار ہونے سے بچائے رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اس دوران جاننے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، ناراض ہو جاتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے یہ سب کیسے برداشت کیا؟ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے صرف ان لوگوں کو اپنے اور اپنے گھر والوں کے قریب رکھا، جو ان کے نظریات کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے معاشرے کے مقابلے میں اپنے بچوں کو چُنا اور اس کے بعد ان کا سفر آسان ہوتا گیا۔

کسی نے ان سے ان کے بیٹوں کے بارے میں بھی پوچھا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک چیپٹر اپنے بیٹوں پر لکھا ہے، جس میں انہوں نے بڑی بہادری سے اعتراف کیا ہے کہ ان کے بڑے بیٹے خوشال نے ان کی عدم توجہ کی شکایت ان کے دوست سے کی تھی۔ برطانیہ منتقل ہونے کے بعد اسے وہاں کے ماحول میں ڈھلنے میں بھی کافی مشکلات پیش آئی تھیں۔ انہوں نے سپیس میں بتایا کہ اس کے لیے انہوں نے ایک ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور اپنا پیرنٹنگ سٹائل تبدیل کرتے ہوئے اس کے مسائل کو حل کیا۔

ان کی باتیں سنتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ پدرشاہی معاشرے میں کسی بھی مرد کے لیے عورت کا ساتھی بننا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، جو کوئی کرنا چاہے تو کر لیتا ہے اور جو نہیں کرنا چاہتا وہ بس حیلے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ ضیاءالدین یوسفزئی نے حیلے بہانے ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی تربیت کی۔ اس کے لیے انہوں نے جس سے ہو سکا سیکھا، چاہے وہ ان کی بیوی تھی، بیٹی تھی، یا بیٹے تھے۔ اس میں انہوں نے کسی جھجھک سے کام نہیں لیا۔ اپنی کتاب اور ہمارے سپیس سیشن میں انہوں نے کئی بار اس کا اعتراف بھی کیا۔ ان کی یہی بات انہیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے۔

ان کی کتاب لیٹ ہر فلائی اب اردو میں بھی دستیاب ہے۔ سادہ زبان میں لکھی ہوئی سادہ سی باتیں ہیں، جو محسوس کرنے والے دل میں فوراً اُتر جاتی ہیں۔