1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کے کوسٹ گارڈز کی کارروائیاں، سینکڑوں افراد روک لیے گئے

عاطف بلوچ، روئٹرز
5 فروری 2017

لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایک ہزار سے زائد غیرقانونی تارکین وطن کو بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین پہنچنے کی کوشش سے روکا ہے۔

https://p.dw.com/p/2X05J
Mittelmeer Migranten und Flüchtlinge in Schlauchboot
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab

لیبیا کے ایک حکومتی ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کوسٹ گارڈز نے مغربی شہر صبراتہ سے بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی کی جانب سفر کرنے کی کوشش کے دوران روکا ہے۔

حکومتی ترجمان ایوب قاسم نے بتایا کہ صرف جمعرات کو صبراتہ شہر سے چار کشتیوں کے ذریعے بحیرہء روم عبور کرنے کے لیے نکلنے والے 431 تارکین وطن کو روکا گیا، جب کہ جنوری کی 27 تاریخ سے اب تک مجموعی طور پر یہ تعداد 1131 بنتی ہے۔

قاسم نے بتایا کہ ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے زیادہ تر کا تعلق زیریں صحارا کے خطے کے افریقی ممالک سے ہے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ قاسم کا تاہم کہنا تھا کہ روکے جانے والے تارکین وطن میں لیبیا، شام، فلسطین اور تیونس کے شہری بھی شامل ہیں۔ قاسم کا کہنا تھا کہ ان کارروائیوں کے دوران انسانوں کے اسمگلروں نے کوسٹ گارڈز کو روکنے کی کوشش بھی کی۔

’’انسانوں کے اسمگلروں نے کوشش کی کہ کوسٹ گارڈز پر فائرنگ کر کے ان گرفتاریوں کو روکا جائے، مگر کوسٹ گارڈز نے جوابی فائرنگ کی اور ان اسمگلروں کو مجبور کیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔‘‘

Libyen Tripolis Gerettete Migranten
لیبیا میں تارکین وطن کی حالت دگرگوں ہےتصویر: Reuters/H. Amara

غیرقانونی طور پر یورپی یونین پہنچنے کی کوشش کرنے والے افراد کی بڑی تعداد کا تعلق لیبیا کے ذریعے بحیرہء روم عبور کر کے اطالوی جزائر کا رخ کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور بلقان کی ریاستوں کی جانب سے اپنی قومی سرحدیں بند کر دینے کے بعد یہی وہ راستہ ہے، جہاں سے اب بھی ہزاروں تارکین وطن یورپ پہنچ رہے ہیں۔

انسانوں کے اسمگلر عموماﹰ ان تارکین وطن کو شکستہ کشتیوں پر سوار کرا کے بحیرہء روم کی موجوں کے سپرد کر دیتے ہیں اور گزشتہ برس ایسی ہی کوششوں کے نتیجے میں ساڑھے چار ہزار سے زائد تارکین وطن لقمہ اجل بن گئے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس کی بڑی وجہ لیبیا میں کسی مؤثر حکومت کا نہ ہونا ہے، جس کی بنا پر یہ اسمگلر بغیر کسی خوف کے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یورپی یونین کی جمعے کے روز ہونے والی ایک سربراہی کانفرنس میں بھی اسی موضوع پر توجہ مرکوز رہی تھی۔ اس کانفرنس میں یورپی رہنماؤں نے لیبیا کو سرمایے اور دیگر صورتوں میں مدد کی پیش کش کی تھی، تاکہ وہاں تارکین وطن کی حالت زار کو بہتر بنایا جا سکے۔