1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں بریقہ کے اکثر حصے دوبارہ باغیوں کے قبضے میں

18 جولائی 2011

لیبیا میں باغی فورسز نے مشرقی شہر بریقہ کے بیشتر حصوں سے معمر قذافی کے حامی فوجیوں کو نکل جانے پر مجبور کر دیا ہے اور یہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران مشرقی لیبیا میں باغیوں کی سب سے بڑی فوجی کامیابی ہے۔

https://p.dw.com/p/11z1n
تصویر: dapd

باغیوں کے ایک ترجمان شمس الدین عبدالمولٰی نے آج سوموار کو ذ‌رائع ابلاغ کو بتایا، ’’انہوں نے تیل کے برآمدی ٹرمینل اور کیمیکل پلانٹ پر مشتمل بریقہ شہر کا محا‌صرہ کر لیا ہے اور قذافی کی بیشتر فورسز نے مغرب میں راس لانوف کی طرف پسپائی اختیار کر لی ہے۔‘‘

تاہم سڑکوں پر بارودی سرنگوں کی بھرمار ہے جن کے باعث علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے اس ترجمان نے کہا کہ بارودی سرنگوں کے سبب شہر کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا دشوار ہے اور ان سے ہونے والا جانی نقصان مشین گنوں اور راکٹ حملوں سے زیادہ ہے۔ باغیوں کے اس ترجمان نے کہا، ’ہفتے کو دس باغی ہلاک اور 175 زخمی ہوئے جبکہ اتوار کو دو ہلاک اور 120 زخمی ہو گئے‘۔

ادھر روس نے باغیوں کی قیادت کو لیبیا کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرنے پر امریکہ اور دیگر ملکوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے آج پیر کو ماسکو میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’وہ قذ‌افی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے باغیوں کی پانچ ماہ سے جاری جنگ میں حلیف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘

Libyen EU NATO Mahmoud Jibril Übergangschef
لیبیا میں باغیوں کی عبوری کونسل کے سربراہ محمود جبریلتصویر: dapd

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جمعہ کے روز ترکی میں لیبیا سے متعلق بین الاقوامی رابطہ گروپ کے اجلاس میں شرکت کے دوران باغیوں کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ روس اور چین نے لیبیا کے رہنما قذافی کے بارے میں نرم رویہ اپنا رکھا ہے اور ان دونوں ملکوں نے رابطہ گروپ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

دریں اثنا معمر قذافی نے اپنے اقتدار کے خلاف پانچ ماہ سے جاری جنگ، نیٹو کے فضائی حملوں اور اپنے کئی قریبی ساتھیوں کی جانب سے ساتھ چھوڑ جانے کے باوجود اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔

باغیوں کی فوجی مہم کی سست روی نے نیٹو ملکوں میں تشویش پیدا کر دی ہے اور بعض ملکوں نے تو اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زور دینا بھی شروع کر دیا ہے۔

اگرچہ ایسی اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ معمر قذافی اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں تاہم ہفتے کو اپنی ایک تقریر میں انہوں نے باغیوں کو ’بے وقعت غدار‘ قرار دیتے ہوئے ایسی تجاویز کو مسترد کر دیا کہ وہ لیبیا چھوڑ کر بیرون ملک چلے جائیں گے۔

فروری میں بغاوت کے آغاز کے بعد سے لیبیا کے بحیرہء روم کے ساحلی علاقے میں واقع شہر بریقہ پر کئی بار قذ‌افی کی حامی فوجوں اور باغی فورسز کا کنٹرول رہا ہے۔

نیٹو کے جنگی طیاروں نے بریقہ کے نزدیک قذافی کی حامی افواج پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ اس نے جمعہ کے روز جن اہداف کو نشانہ بنایا، ان میں ایک ٹینک، پانچ بکتربند گاڑیاں اور دو راکٹ لانچر شامل تھے۔

طرابلس میں حکومتی عہدیداروں نے بریقہ میں لڑائی کی رپورٹوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور آزاد ذرائع سے باغیوں کے اس شہر کے زیادہ تر حصوں پر دوبارہ قبضے کے دعووں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

دیگر رپورٹوں کے مطابق اتوار کو طرابلس کے جنوب مغرب میں واقع مغربی پہاڑوں کے القوالش نامی گاؤں میں معمر قذافی کی حامی افواج اور باغیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ قذافی کی افواج کی جانب سے مزاحمت کے باوجود باغی مبینہ طور پر اس علاقے میں پیش قدمی کرنے میں کامیاب رہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں