1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’لزبن معاہدہ‘‘ وفاقی جرمن آئینی عدالت میں

امجدعلی / عابد حسین قریشی29 جون 2009

یورپی یونین کے چار ممالک پولینڈ، چیک ری پبلک، آئر لینڈ اور جرمنی میں ابھی یونین کے ’’لزبن ٹریٹی‘‘ کہلانے والے نئے بنیادی معاہدے کی توثیق نہیں ہوئی۔ پولینڈ اور چیک ری پبلک کے صدور کو ابھی متعلقہ معاہدے پر دستخط کرنا ہیں۔

https://p.dw.com/p/IdgF
لزبن معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک (سبز)، اِسے قبول کرنے سے انکار کرنے والے (سرخ) اور جہاں ابھی کوئی فیصلہ ہونا ہے (زرد)تصویر: DW

آئر لینڈ میں عوام اکتوبر میں منعقد ہونے والے اپنی نوعیت کے دوسرے ریفرنڈم میں اِس معاہدے پر اپنی رائے دیں گے جبکہ جرمنی میں، جہاں پارلیمان لزبن ٹریٹی کی منظوری دے چکی ہے، منگل تیس جون کو وفاقی جرمن آئینی عدالت اِس معاہدےکے خلاف دائر کی گئی چھ اپیلوں کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بتائے گی کہ آیا یہ معاہدہ جرمن آئین سے ہم آہنگ ہے۔ عدالت کی طرف سے اِس یورپی معاہدے کے خلاف کوئی فیصلہ جرمنی اور یورپ میں ایک سیاسی زلزلے کے مترادف ہو گا۔

Jo Leinen im EU-Parlament
یورپی پارلیمان میں آئینی کمیٹی کے چیئرمین جو لائیننتصویر: picture-alliance / dpa

دو روز کی سماعت میں یورپی معاہدے کے حامیوں اور مخالفین کی طرف سے جو دلائل سامنے لائے گئے، اُنہیں دیکھ کر مبصرین کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ عدالت کے آئینی امور سے متعلق آٹھ جج کیا فیصلہ دیں گے۔

سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان جو لائنن یورپی پارلیمان میں آئینی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور کہتے ہیں کہ نیا یورپی معاہدہ کسی بھی طرح جرمن منشور کی نفی نہیں کرتا۔ وہ کہتے ہیں:’’میں ہرگز اِس بات کا تصور نہیں کر سکتا کہ نیا یورپی معاہدہ جرمن آئین سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ تاہم اِس طرح کی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ممکن ہے کہ اعلیٰ عدالت کچھ ایسی شرائط عائد کر دے یا ایسا کوئی فیصلہ سامنے لے آئے، جو معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔‘‘

Peter Gauweiler
جرمن پارلیمان کے قدامت پسند رکن پارلیمان پیٹر گاؤ وائیلرتصویر: AP

لزبن ٹریٹی کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والوں کا موقف ہے کہ پھر جرمن قوانین کے مقابلے میں یورپی یونین کے قواعد و ضوابط کو فوقیت حاصل ہو جائے گی اور وفاقی جرمن آئینی عدالت اپنے اختیارات کھو بیٹھے گی۔

وفاقی جرمن پارلیمان کے قدامت پسند رکن پیٹر گاؤ وائلر کو خدشہ ہے کہ لزبن معاہدے کے بعد جرمن پارلیمان کے پاس کوئی اختیارات نہیں رہیں گے۔ اُن کا موقف ہے:’’لزبن معاہدہ کچھ ایسے وضع کیا گیا ہے کہ جب جرمن حکومت پارلیمان میں اپنا کوئی منصوبہ منظور کروانے میں ناکام ہو جائے گی تو وہ وہی منصوبہ یورپی کونسل میں لے جائے گی اور وہاں سے فرمان جاری کروا لے گی۔ ایسے میں جرمن پارلیمان کے پاس اُس فرمان کو عملی شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔‘‘

شہر کارلسروہے کی وفاقی جرمن آئینی عدالت میں جرمن حکومت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے نے کہا کہ گو یورپی اتحاد کا عمل یورپی یونین کو اختیارات کی منتقلی کا تقاضا کرتا ہے لیکن لزبن معاہدہ رکن ملکوں کے آئین کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بناتا ہے۔

Bundesinnenminister Wolfgang Schäuble
جرمن وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلےتصویر: picture-alliance/ dpa

شوئبلے کے بقول یہ یورپی معاہدہ ہرگز جرمن آئین کی نفی نہیں کرتا:’’اِس جرمن آئین میں شروع ہی سے یورپی اتحاد کی بات کی گئی تھی۔ 1949ء میں جرمن آئین کے ابتدائی مسودے ہی میں تب ابھی منقسم جرمنی کے لئے یہ ہدف تحریر کیا گیا تھا کہ جرمنی ایک متحد یورپ کے مساوی حقوق رکھنے والے رکن کے طور پر دنیا میں امن کے لئے کوشاں ہو گا۔‘‘

اگر وفاقی جرمن آئینی عدالت کا منگل تیس جون کا فیصلہ لزبن یورپی معاہدے کے خلاف آیا تو یہ بات یورپی اتحاد کے عمل کے لئے ایک بہت بڑے دھچکے کے مترادف ہو گی۔