1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لزبن معاہدہ نافذ العمل

1 دسمبر 2009

يورپی يونين میں وسیع تر اصلاحات کا ضامن لزبن کا معاہدہ آج يکم دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/KmTE
تصویر: AP

اس معاہدے کو يورپی يونين کے موجودہ 27 يا مستقبل میں اور بھی زيادہ رکن ممالک کی ضروريات کے مطابق وضع کيا گيا ہے۔ اس ميں متفقہ کی بجائے اکثريتی فيصلوں کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ تاہم نئے ملکوں کی شموليت کے لئے تمام رکن ممالک کا متفق ہونا آئندہ بھی لازمی ہوگا۔

يورپی يونين کے رکن ممالک نے نِيس کا جو معاہدہ طے کيا تھا، اس ميں رکن ریاستوں کی تعداد ستائيس تک پہنچ جانے کا قبل ازوقت لحاظ نہيں رکھا گيا تھا، کيونکہ تب اِن ملکوں کی تعداد آج کے مقابلے میں تقريباً آدھی تھی۔ اسی لئے يورپی يونين کے رکن بڑے ملکوں فرانس اور جرمنی نے لزبن کے نئے معاہدے کی منظوری کے بغير يونين ميں نئی ریاستوں کی شمولیت کی بار بار مخالفت کی تھی۔ اسی حوالے سے جرمن چانسلر ميرکل نے کہا تھا: " ہميں صحيح طرح سے اپنا کام انجام دينےاور يورپی يونين ميں توسيع کے لئے لزبن کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ یہ توسیع خاص طور پر یورپی استحکام کے لئے بہت اہم ہے۔ اس سلسلے ميں ميری مراد مغربی بلقان کے ملکوں سے بھی ہے۔"

Symbolbild EU Türkei Istanbul
یونین میں شرکت کے خواہش مند ممالک میں ترکی بھی شامل ہے۔تصویر: Fotomontage/AP/DW

خاصی کشمکش کے بعد يکم دسمبر سے نافذ ہونے والے معاہدہء لزبن کے تحت يورپی يونين کے بہت سے شعبوں ميں اکثريتی رائے سے فيصلے کئے جاسکيں گے۔ تاہم کسی نئے ملک کی شموليت کے بارے ميں کئی سالہ مذاکرات کے بعد يونين کے سبھی ملکوں میں اتفاق رائے سے ہی ایسا فيصلہ کيا جا سکے گا۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے، يورپی پارلیمان کے قدامت پسند رکن ايلمار برَوک کے خيال ميں لزبن کا نيا يورپی معاہدہ، ايک وسيع تر يورپی يونين کے لئے اپنے ساتھ کئی اہم اور نئے مواقع لايا ہے: " جس قدر زيادہ ممالک ہوں گے،اتنے ہی زيادہ اکثريتی فيصلے ہوں گے، کيونکہ اگر صرف مکمل اتفاق ہی کی بنياد پر فيصلہ سازی کت طریقے کو برقرار رکھا جاتا، تو کوئی بھی ملک کسی بھی فيصلے کو روک سکتا تھا۔ جيسا کہ لزبن کے نئے معاہدے سے پہلے دیکھنے میں بھی آیا۔ اس طرح اب اکثريتی فيصلہ عام طريقہء کار ہوگا جبکہ متفقہ فيصلہ صرف اُن صورتوں ميں کيا جائے گا، جن کی واضح نشاندہی کردی گئی ہے۔ "

Belgien EU Präsident Herman Van Rompuy
یونین کے صدر ہیرمن فون رومپوے۔تصویر: AP

يورپی يونين ميں شموليت کے اميدوار نئے ملکوں میں سے کروشيا اور غالباً آئس لينڈ سر فہرست ہيں۔ يونين کی رکنيت کے لئے مذاکرات تو ترکی سے بھی ہورہے ہيں، ليکن يہ شايد ابھی سالہا سال تک جاری رہيں گے۔ يورپی پارليمنٹ ميں گرين پارٹی کے رکن بِیُوٹی کوفر کا کہنا ہے کہ ان کا پارليمانی دھڑا، ترکی کی يورپی يونين ميں مکمل رکنيت کا حامی ہے۔ وہ کہتے ہیں: "ميں يورپی يونين ميں آئندہ توسيع سے متعلق پُر اميد ہوں۔ ہر نئے رکن کے بارے ميں انفرادی اور تفصيلی بحث ہونا چاہئے۔"

يورپی يونين کی تاريخ ميں پہلی بار لزبن کے معاہدے ميں کسی رکن ریاست کی يونين سے عليحدگی کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔

رپورٹ : سوزانے ہَين/ ترجمعہ : شہاب صدیقی

ادارت : مقبول ملک