1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان تنازعہ: جرمن عوام کیا سوچتے ہیں؟

4 اگست 2006

نامہ نگاروں کی رپورٹوں اور رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کے ساتھ لبنانی عوام کی ہمدردیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اِدھر مغربی دُنیا میں اگرچہ ابھی بھی انتہا پسند اسلامی تنظیم کے طور پر حزب اللہ کو مسترد کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے بارے میں ناپسندیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے، خاص طور پر جرمنی جیسے ممالک میں بھی، جو روایتی طور

https://p.dw.com/p/DYKO
جمعہ چار اگست کو لبنانی دارالحکومت بیروت کے جنوبی حصے اسرائیلی حملوں کی زَد میں
جمعہ چار اگست کو لبنانی دارالحکومت بیروت کے جنوبی حصے اسرائیلی حملوں کی زَد میںتصویر: picture-alliance/ dpa

پر اسرائیل دوست تصور کئے جاتے ہیں۔ Peter Stützle کا لکھا تبصرہ

لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد اپنے ابتدائی ردعمل میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایک طرح سے جرمن عوام کے دل کی بات کہی تھی۔ اُنہوں نے کہا تھا، اسرائیل کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ لبنان عدم استحکام کا شکار نہ ہو جائے۔

اِس بیان کے ایک ہفتے بعد ہی جرمن عوام اور چانسلر اپنے اپنے مَوقِف میں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر جا چکے ہیں۔ رائے عامہ کے ایک جائزے میں تین چوتھائی جرمن باشندوں نے اسرائیلی فوجی پیش قدمی کو نامناسب قرار دیا، صرف بارہ فیصد نے اِس کی حمایت کی جبکہ باقی ماندہ نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔

چانسلر نے اسرائیلیوں کو یہ انتباہ تو ضرور کیا تھا کہ اُنہیں جنگ میں ہتھیاروں وغیرہ کے استعمال میں مخصوص حدود کے اندر رہنا چاہیے لیکن ساتھ ہی اُن کا مطالبہ تھا کہ پہلے حزب اللہ کو مَغوی اسرائیلی فوجی رہا کرنا ہوں گے اور اسرائیل پر راکٹوں کے حملے بند کرنا ہوں گے، پھر کہیں جا کر اسرائیل کو اپنے حملے بند کر دینے چاہییں۔ اب چونکہ یہ بات واضح ہی تھی کہ حزب اللہ ملیشیا اِس طرح کے مطالبے کو نظر انداز کر دے گی، چنانچہ چانسلر کا یہ بیان گویا اسرائیل کو جنگ کی کھلی اجازت دینے کے مترادِف تھا۔

جرمن رائے عامہ میں اِس بات پر بڑی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ جرمن عوام میں حزب اللہ کے مشکوک چھاپہ ماروں اور اُنکی پُشت پناہی کرنے والے ایرانیوں کے حوالے سے ناپسندیدگی کے احساسات پائے جاتے ہیں۔

وقتاً فوقتاً لگایا جانے والا یہ الزام قطعاً غلط ہے کہ جرمنوں کو صرف لبنانی عوام کے مصائب ہی نظر آتے ہیں اور وہ اسرائیلیوں کی تکالیف کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے شکار ہونےوالے ہر اسرائیلی باشندے کو جرمن ذرائع ابلاغ میں اکثر افریقی جنگوں میں ہلاک یا زخمی ہونےوالے ہزاروں باشندوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔

آج کل بھی جرمن ذرائع ابلاغ دونوں فریقوں کے بارے میں رپورٹیں نشر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ جرمن باشندے کسی دہشت گرد تنظیم کے مقابلے میں اسرائیلی ریاست سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ بلند اخلاقی معیارات کی پاسداری کرے گی۔ یہ سوچ غیر منصفانہ نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ جرمن اسرائیل کی کتنی قدر کرتے ہیں۔

جب اسرائیل سن 1967ء میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا تو پورا جرمنی اُس کے ساتھ تھا۔ لیکن جب یہی اسرائیل اپنے شہریوں کے خلاف دہشت پسندانہ حملوں کا جواب ایسے حملوں کی صورت میں دے، جس میں دَس گنا زیادہ شہری ہلاک اور زخمی ہوں تو یہ بات جرمنوں کےلئے قابلِ فہم نہیں ہے۔

فروری سن 2005ء میں سابق لبنانی وزیرِ اعظم رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات ایک جرمن وکیلِ استغاثہ Detlev Mehlis نے کی تھیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے جرمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ لبنان آج کل اپنے ہمسایہ ملک شام کے حِصار سے نکلنے کی کوششیں کر رہا تھا۔

اب یہ جرمن باشندے اِس بات پر برہم ہیں کہ موجودہ جنگ لبنان میں جاری جمہوری عمل اور اسرائیل کی شمالی سرحد پرامن کے امکانات کو تباہ کر سکتی ہے۔

اسرائیل کی سیاست کے حوالے سے جرمن رائے عامہ کی ناپسندیدگی اِس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ باشندے کسی مشرقِ وُسطےٰ امن دَستے میں جرمن فوجیوں کی شرکت کے حق میں نہیں ہیں۔ ایسے میں اگر کل کلاں اسرائیل کی جانب جرمن حکومت کی برداشت بھی جواب دے جاتی ہے تویہ بات باعثِ تعجب نہیں ہونی چاہیے۔