1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قدرتی آفات اور اَشیائے خوراک کی ہوش رُبا قیمتیں

24 مارچ 2011

دُنیا بھر میں بائیو ڈیزل، اسٹاک ایکسچینج کے بحران، خشک سالی اور سیلابوں کے نتیجے میں اَشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ابھی سے یہ حالت ہے کہ یہ قیمتیں سن 2008ء کی ریکارڈ حد کو بھی پار کر گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/10giI
تصویر: AP

2008ء میں اناج اور دیگر اَشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے خلاف بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔ ستمبر 2010ء میں عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت FAO نے ایک چھوٹی سی کامیابی کی خبر سنائی تھی اور کہا تھا کہ دُنیا بھر میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد ایک ارب کی حد سے نیچے آ گئی ہے۔

ساتھ ہی البتہ اِس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ژاک دیوف نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:’’خوراک کی عالمی منڈی کا یہ بحران ایک انتباہ ہے کہ مستقبل قریب میں بھی یہ اُتار چڑھاؤ جاری رہے گا۔ قیمتوں میں اضافہ اور حد سے زیادہ اُتار چڑھاؤ بھوک کے خاتمے کی جدوجہد کو اور زیادہ مشکل بنا دے گا۔‘‘

Lebensmittel Preise in Deutschland Flash-Galerie
بھوک کا سامنا اُن انسانوں کو کرنا پڑتا ہے، جو سب سے زیادہ خوراک اگاتے ہیںتصویر: DW/Ilcheva

لیکن ژاک دیوف کے لیے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ 2011ء کے اوائل میں ہی قیمتوں میں اِس قدر اضافہ ہو جائے گا۔ اِس اضافے کے آثار البتہ پہلے سے ہی نظر آنے لگے تھے۔ روس میں خشک سالی کے باعث بڑے رقبے پر پھیلے جنگلات میں آگ لگ گئی، جس کے باعث روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن کو اناج کی برآمدات پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ چونکہ روس کا شمار گندم برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے، اِس لیے اِس فیصلے کے اثرات دُنیا بھر میں محسوس کیے گئے۔

پاکستان میں گزشتہ سال کے موسمِ گرما کے ہولناک سیلاب نے اُس خطے کے وسیع و عریض زرعی رقبے کو تباہ کر دیا، جو عام طور پر ملک کو سب سے زیادہ اناج دینے والا خطہ کہلاتا ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوزیٹ شیران بتاتی ہیں کہ اِس سیلابی تباہی کے چند روز بعد ہی اَشیائے خوراک تین تا چار گنا مہنگی ہو گئی تھیں۔

شیران بتاتی ہیں:’’اٹلی کے رقبے کے برابر علاقہ زیرِ آب آیا۔ پاکستان کا یہ علاقہ خوراک کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔ پانچ بجلی گھر پانی کی زَد میں آ چکے ہیں۔ ساٹھ فیصد سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ مَیں نے اِن متاثرین سے زیادہ کمزور آبادی کہیں نہیں دیکھی جبکہ یہ وہ لوگ تھے، جو پہلے ہی کم خوراکی اور بھوک کا شکار تھے۔‘‘

Lebensmittel Preise in Deutschland Flash-Galerie
جرمنی میں شہری اپنی آمدنی کا محض تقریباً دَس فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں لیکن عالمی منڈی میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات یہاں بھی محسوس کیے جا رہے ہیںتصویر: DW/Ilcheva

پاکستان ہو، بھارت، چین یا پھر افریقی ممالک، اَشیائے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر وہ غریب طبقہ ہوتا ہے، جسے پہلے ہی اپنی آمدنی کا 80 فیصد خوراک پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی میں شہری اپنی آمدنی کا محض تقریباً دَس فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں لیکن عالمی منڈی میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات یہاں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ بھوک کا سامنا اُن انسانوں کو کرنا پڑتا ہے، جو سب سے زیادہ خوراک اگاتے ہیں۔ عشروں سے دیہی علاقے نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے شہر پھیلتے چلے گئے ہیں، کچی پسماندہ بستیوں کی تعداد بڑھی ہے اور سماجی بے چینی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر جلد مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو دیہات خالی ہوتے چلے جائیں گے اور شہروں میں بسنے والے اُس خوراک سے محروم ہونے لگیں گے، جو ابھی تک دیہات میں پیدا ہو رہی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں