1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قابل نوجوانوں کی ہجرت، افغان معیشت کو دھچکا

شمشیر حیدر7 دسمبر 2015

اعلیٰ تعلیم یافتہ افغانی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد افغانستان کے حالات سے مایوس ہو کر حالیہ مہینوں میں جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں پناہ کی تلاش میں پہچی ہے جس کے باعث افغان معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HIpE
Symbolbild Afghanistan Graffiti
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

فرشید غیاثی کابل کی ایک سافٹ ویئر کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ ان کی کمپنی آج کل شدید مشکلات کا شکار ہے۔ کمپنی میں کام کرنے والے ذہین اور پڑھے لکھے نوجوان افغانستان کو خیرآباد کہہ کر یورپ میں پناہ کی تلاش میں نکل رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی کمپنی بلکہ افغانستان کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں ایسی ہی صورت حال ہے۔ افغانستان اور پچھلے پندرہ برس کے دوران اس کی مدد کرنے والے مغربی ممالک کو بڑی تعداد میں ترک وطن کرنے والے ان نوجوانوں سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ 2014ء میں نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان نے دوبارہ زور پکڑ لیا ہے۔ تاہم افغانستان میں مخدوش ہوتی ہوئی سیکورٹی صورت حال نے ان نوجوانوں کو اپنے وطن سے بظاہر مایوس کر دیا ہے۔

ماہر معیشت اور غضنفر بینک کے سربراہ، احمد سیار قریشی کہتے ہیں، ’’یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ ہمارے پاس پہلے ہی پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یورپ کا رخ کرنے والے افغانیوں کی اکثریت تیس برس سے کم عمر ہے۔‘‘

Afghanistan Studenten der Universität in Kabul
تصویر: Getty Images

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کے مطابق صرف اس برس کے دوران ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ افغان شہری پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران افغانستان سے ہجرت کی ہے۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین سے وابستہ رچرڈ ڈان زیگر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ہجرت کرنے والا ہر فرد’’اعلیٰ تعلیم یافتہ تو نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہےکہ معاشرے کا سب سے زیادہ متحرک اور کارآمد طبقہ افغانستان چھوڑ کر جا رہا ہے۔‘‘

کابل یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والا ایک تیس سالہ شخص بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جو افغانستان سے ہجرت کر کے یورپ کے غیر قانونی سفر پر روانہ ہونے کا خواہش مند ہے۔ اگرچہ وہ کابل کی ایک قانونی فرم میں بہت اچھی نوکری کر رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ماضی میں نیٹو سے وابستگی کے باعث اسے افغانستان میں جان کا خطرہ ہے۔

اس نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ میرے ملک کے لیے اچھی بات نہیں ہے، لیکن میری اپنی بھی تو زندگی ہے۔ مجھے معلوم ہے وہاں مجھے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن میں پھر بھی جانے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہوں۔‘‘

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہ کر افغانستان کی خدمت کریں۔ لیکن جب ملک کے حکمرانوں اور امیر طبقے کے اپنے بچے بیرون ممالک میں مقیم ہوں تو ایسے میں افغان صدر کی اس گزارش پر کون کان دھرے گا۔ ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غنی کا کہنا تھا، ’’بیرون ملک رہنے والے نوجوانوں کو برتن ہی دھونا پڑتے ہیں، وہ ان ممالک کے متوسط طبقے کا حصہ نہیں بن سکتے۔‘‘