1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیک نیوز سائٹس بھی گوگل اور ایمازون سے کما رہی ہیں، رپورٹ

9 جولائی 2020

ریسرچرز کے مطابق فیک نیوز سائٹس کو رواں برس کے اختتام تک کئی ملین ڈالر کی رقوم منتقل ہو جائیں گی۔ ایسی سائٹس کو کئی اہم اور مشہور کمپنیوں کے اشتہار بھی دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3f2n0
Symbolbild Digitalsteuer & US-Internetkonzerne
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Jaitner

کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں فیک نیوز اور سازشی نظریات پھیلانے والی ویب سائٹس اس سال کے آخر تک گوگل اور ایمازون جیسے اداروں سے اشتہارات کی مد میں پچيس ملین ڈالر تک کما سکتی ہیں۔ یہ بات ایک تازہ تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 'غلط معلومات‘ پھیلانے والے بھی گوگل سے کما رہے ہیں۔

دنیا بھر میں زیادہ تر ویب سائٹس کی کمائی کا انحصار ان پر دکھائے جانے والے اشتہارات پر ہوتا ہے۔ زیادہ تر اشتہارات گوگل اور ایمازون جیسی بڑی کمپنیوں کے ذریعے دیگر ویب سائٹس پر دکھائے جاتے ہیں۔ یہ کمپنیاں ان اشتہارات پر کلک کیے جانے والے کلکس کے تناسب سے ویب سائٹس کو پیسے دیتی ہیں۔

ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس سال کے آخر تک اشتہارات کی مد میں 25 ملین ڈالر ایسی ویب سائٹس کو ديے جا سکتے ہیں جن پر کورونا وائرس کی وبا سے متعلق غلط خبریں اور سازشی نظریات پھیلائے جاتے رہے۔

جائزے کے مطابق فیک نیوز ویب سائٹس کی 95 فیصد آمدن گوگل، ایمازون اور اوپن ایکس جیسی کمپنیوں سے حاصل ہو گی۔ ان تک پہنچنے والے اشتہارات میں مشہور برانڈز مثلاً لوریال اور مائیکروسافٹ بھی شامل ہیں۔

یہ تفصیلات گلوبل ڈس انفارمیشن انڈیکس کی جانب سےفراہم کی گئی ہیں جو خبر کے درست ہونے کی معیار سے متعلق ویب ٹُول مہیا کرتا ہے۔ ناقص معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹس میں چند بہت مشہور بھی ہیں اور ان میں امریکن تھنکرز ڈاٹ کام کے علاوہ بِگ لیگ پالیٹکس ڈاٹ کام، گیٹ وے پنڈٹ ڈات کام شامل ہیں۔

گلوبل ڈس انفارمیشن انڈیکس کے پروگرام ڈائریکٹر کریگ فاگن کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں استعمال کیا جانے والا ہر ڈالر اعتماد والی ویب سائٹس کو ملنے کے بجائے غلط معلومات کی ترسیل کرنے والی ویب سائٹس کو پہنچ رہا ہے اور یہ درست نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فاگان نے اس یقین کا اظہار کیا کہ گوگل اور ایمیزون کا احتساب ضروری ہے کہ وہ کیسے فیک نیوز والی ویب سائٹس کو لاکھوں ڈالر دینے کی مرتکب ہوئی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی ٹیکنیکل کمپنیوں کے پاس ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اُن ویب سائٹس کا انتخاب کر سکتی ہیں جنہیں اشتہارات دینے ہوں۔ فاگان کا کہنا ہے کہ آزادیٴ اظہار کا مقصد یہ نہیں کہ اس مد میں غلط معلومات کے اظہار پر ڈالر فراہم کیے جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ غلط معلومات پھیلانے والی ویب سائٹس کو بلیک لسٹ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا بھی بڑے ٹیکنیکل اداروں کی کارپوریٹ ذمہ داری میں شامل ہے۔

گلوبل ڈس انفامیشن انڈیکس سے وابستہ کریگ فاگان کا کہنا ہے کہ غلط خبروں اور ناقص معلومات سے جنم لینے والے سازشی نظریات عام لوگوں کو شدید انداز میں متاثر کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ایسے افراد حکومتی لاک ڈاؤن اقدامات کو خاطر میں نہیں لاتے، جو ایک خطرناک رویہ ہے۔ فاگان نے یہ بھی کہا کہ ایسی ویب سائٹس اینٹی ویکسین خیالات کو بھی پھیلانے میں مصروف ہیں۔

اس ریسرچ کے لیے چار سو اسی ویب سائٹس کی پوری طرح جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ فاگان کا کہنا ہے کہ غلط معلومات کو پھیلانا ایک پرانا فعل ہے اور ان کی ریسرچ کا مقصد اس فعل سے حاصل ہونے والی مالی منفعت کو قابو میں لانا ہے۔

ع ح / ع س، نيوز ايجنسياں