1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج مخالف مہم: ٹاسک فورس کی مخالفت

24 مارچ 2023

سیاستدانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی برادری نے ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے مطابق حکومت فوج مخلاف مہم کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4PCED
Pakistan Premierminister Imran Khan
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ان تنظیموں نے ایسی کسی بھی حکومتی کوشش کی بھرپور مخالفت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرنے سے باز آئے۔ واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے آج اس حوالے سے ایک وضاحت دیتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کوئی ٹاسک فورس بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی تاہم اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔

 تاہم ناقدین نے خواجہ آصف کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فوری طور پر اس حوالے سے وضاحت کرے۔

 انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ایک سمری پہلے ہی تیار کر لی گئی ہے اور اسے منظوری کے لیے متعلقہ اداروں کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔

ایک حکومتی اہلکار نے اخبار کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ فی الحال یہ ایک تجویز ہے۔ اخبار کے مطابق اس ٹاسک فورس میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اورنادرا کے افسران شامل ہوں گے۔ مجوزہ ٹاسک فورس، جس کی معاونت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کریں گے، وہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے حوالے سے سفارشات تیار کرے گی۔

موجودہ سیاسی بحران کے محرکات، کردار اور اثرات

تجویز کا پس منظر

یہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت پاکستان تحریک انصاف پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ ملک کی فوج کے خلاف ایسی مہم چلا رہی ہے جس کا مقصد اس ادارے کو بد نام کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے مبینہ طور پرحالیہ دنوں میں نہ صرف سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مختلف ٹرینڈز چلائے ہیں بلکہ دنیا کے کچھ دارالحکومتوں میں بھی سیاسی مظاہروں کے دوران فوج کے خلاف مبینہ طور پر دشنام طرازی کی گئی ہے۔

Screenshot Youtube - GNN
جب تک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہے گی، لوگ تنقید کرتے رہیں گے، ایوب ملکتصویر: Youtube

فوج کے خلاف تنقید کو روکنے کی کوششیں

پاکستان مسلم لیگ نون کی گزشتہ حکومت کے دوران بھی پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ نافذ کیا گیا تھا، جس کے حوالے سے ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے بنایا گیا تاکہ طاقت ور حلقوں پر تنقید نہ کی جا سکے۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین لانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس برس فروری میں موجودہ حکومت نے بھی کوشش کی کہ وہ ایسے قوانین لے کر آئے جس کے تحت عدلیہ اور فوج پر ہونے والی بے جا تنقید کو روکا جا سکے۔ تاہم ان کوششوں کے خلاف جب مختلف حلقوں کی طرف سے ردعمل آیا، تو حکومت نے اپنی کوششوں کو ترک کردیا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟

فوج کو آئینی حدود میں محدود کریں

 خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں فوج کا ہمیشہ سے ایک کلیدی کردار رہا ہے، جس نے ملک کی تقریباً 75 سالہ تاریخ میں 25 سال سے زائد عرصہ براہ راست حکومت کی ہے جبکہ مختلف جمہوری حکومتوں کے ادوار کے دوران بھی فوج پر یہ الزام آیا ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر حکومت چلاتی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کئی مرتبہ اس بات کا اشارہ دیا کہ 'اصل اقتدار تو کسی اور کے پاس تھا۔‘

 کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ بجائے اس کے کہ حکومت کوئی کمیٹی بنائے، فوج کو اس کے آئینی اختیارات تک محدود کر دینا چاہیے۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک کا کہنا ہے کہ کسی کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب تک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہے گی، لوگ تنقید کرتے رہیں گے۔ فوج نے 2018 ء کے الیکشن میں مداخلت کی اور سیاسی انجینئرنگ میں حصہ لیا۔ اگراسٹیبلشمنٹچاہتی ہے کہ اس پر تنقید نہ ہو تو اسے اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔‘‘

شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں

 خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام ماضی میں فوج کی بہت بڑی ناقد رہی ہیں۔ ان جماعتوں نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت اس طرح کے اقدامات کرکے اپنے قول وفعل میں تضاد ظاہر کر رہی ہے۔  ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کی کوئی بھی کمیٹی یا ٹاسک فورس سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ماضی میں سیاستدانوں نے بہت سارے ایسے قوانین بنائے جو بعد میں ان کے گلے کی ہڈی بنے۔‘‘

 اسد بٹ کا خیال ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ اس ٹاسک فورس یا کمیٹی کو تحریک انصاف کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ '' لیکن اس پر کسی بھی سیاسی جماعت کو شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج اگر یہ کمیٹی پی ٹی ائی کے خلاف استعمال ہو گی تو کل نون لیگ کے خلاف بھی استعمال ہو گی۔‘‘

’ڈی نیازیفیکیشن‘ اور شاہی اصطبل کے گھوڑے

 پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے کی بنیاد پر کئی صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ صحافیوں کو تو صرف اپنی نوکری سے اس لیے ہاتھ دھونا پڑا کیونکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر طاقتور حلقوں پر تنقید کردی تھی۔ اس کے علاوہ  صحافیوں کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل اور معروف صحافی ناصر زیدی کا کہنا ہے ہے کہ انہیں اس کمیٹی کے حوالے سے آنے والی خبروں پر بہت تشویش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خواجہ آصف کی وضاحت ناکافی ہے۔ حکومت اس پر واضح وضاحت دے۔ ملک میں پہلے سے قوانین موجود ہیں اور ان قوانین کو استعمال کیا جائے۔‘‘

ناصر زیدی کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ ان قوانین کو سیاسی کارکنان کے علاوہ صحافیوں کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا۔

گزشتہ کچھ برسوں میں جب بھی اس طرح کی کوئی کمیٹی یا کوئی قانون سامنے آیا ہے، تو سول سوسائٹی اور مختلف تنظیموں کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت ہوئی ہے۔