1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینیوں کا قتل، ’یہودی دہشت گرد گروپ‘ کے اراکین گرفتار

امتیاز احمد3 دسمبر 2015

اسرائیل نے اس ’یہودی دہشت گرد گروپ‘ کے متعدد اراکین کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے ایک فلسطینی خاندان کے گھر کو آگ لگائی تھی، جس کے نتیجے میں ایک شیرخوار بچہ اور اس کے والدین ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1HGxE
Israel Palästina abgebrantes Haus der Familie Dawabsheh in Duma Westjordanland
تصویر: Getty Images/O. Ziv

اسرائیلی شدت پسندوں کے اس حملے میں ایک چار سالہ فلسطینی بچہ زخمی بھی ہو گیا تھا جبکہ اس واقعے نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین جاری حالیہ تشدد میں تیل کا کام کیا تھا۔ آج اسرائیل کی مقامی سکیورٹی ایجنسی شاباک کا کہنا تھا کہ انہوں نے حالیہ دنوں کے دوران مبینہ دائیں بازو کے یہودی دہشت گرد گروپ کے متعدد اراکین کو گرفتار کر لیا ہے۔ حکام کے مطابق ان افراد کو جولائی میں مغربی کنارے میں ایک فلسطینی خاندان کا گھر نذر آتش کرنے میں کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

اسرائیل کی طرف سے ان گرفتاریوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب گزشتہ روز ہی مشرق وسطی امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر نیکولے ملادینوو نے اسرائیل کو ’تنقید کا نشانہ‘ بنایا تھا۔ نیکولے ملادینوو کا کہنا تھا کہ انہیں حملہ آوروں کے حوالے سے اسرائیل میں ’انصاف کی سست پیش رفت‘ پر تحفظات ہیں۔

عدالتی احکامات کی وجہ سے پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ اس سلسلے میں دائیں بازو کے کتنے شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے نام کیا ہیں۔ جولائی میں فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں فلسطینیوں کے گھروں پر آتشیں بموں کے حملے میں ایک ڈیڑھ سالہ بچہ اور اس کے والدین جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی طرف سے متنازعہ طور پر مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لیے مزید 300 گھروں کی تعمیر کی اجازت دینے کے محض دو روز بعد رونما ہوا تھا۔

اس واقعے کے بعد بین الاقوامی برادری، اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں نے اس حملے کی شدید مذمت کی تھی جبکہ اسرائیلی حکام نے یہودی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا تھا۔ اس کے بعد سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین خونریز واقعات کا آغاز ہو گیا تھا۔ اب تک ان واقعات میں 97 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ مارے جانے والے اسرائیلیوں کی تعداد انیس بنتی ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز پر اسرائیلی میں کام کرنے والے ہیومن رائٹس گروپ ’بتسلیم‘ نے کہا تھا کہ اسرائیل ’’شوٹ ٹو کِل‘‘ پالیسی اپنائے ہوئے ہے جبکہ اسرائیلی حکام نے اس کی تردید کی تھی۔