فرانس الجزائر میں نسل کشی کا مرتکب ہوا، ترکی
23 دسمبر 2011ایک روز قبل فرانس کی پارلیمنٹ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام سے انکار کے بل کی ابتدائی منظوری دی تھی، جس کے تحت آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کا انکار کرنے کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے، جس کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی شخص کو ایک برس تک کی سزا دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ ایسے شخص کو 45 ہزار یورو تک جرمانے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
اس پیش رفت کے تناظر میں ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے براہ راست فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کو نشانہ بنایا ہے۔
ترک وزیر اعظم کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اندازوں کے مطابق سن 1945 کے بعد فرانس نے الجزائر کے 15 فیصد عوام کو ہلاک کیا۔ یہ واضح طور پر نسل کشی ہے۔‘‘
ترک وزیر اعظم کا فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں اور ترکوں کے خلاف نفرت پر مبنی بیانات کے ذریعے انتخابی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ’’فرانس اور یورپ میں نسل پرستی، تعصب اور اسلام فوبیا خطرناک سطح تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘
قبل ازیں ترک سفیر کو فرانس سے واپس انقرہ طلب کر لیا گیا تھا جبکہ ترکی نے فرانس کے ساتھ فوجی اور سفارتی تعلقات معطل کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
پراگ کے ایک دورے کے موقع پر فرانسیسی صدر کا دفاعی انداز میں کہنا تھا، ’’میں اپنے ترک دوستوں کے خیالات کا احترام کرتا ہوں۔ ترکی ایک عظیم ملک ہے اور ایک عظیم تہذیب کا مالک ہے۔ انہیں ہمارا بھی احترام کرنا چاہیے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’فرانس کسی کو لیکچر نہیں دیتا لیکن ہمیں بھی کوئی لیکچر نہ دے۔ فرانس ایک خود مختار ملک ہے اور ہمیں پالیسی سازی کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
الجزائر فرانس کی نوآبادی تھا اور وہاں اپنے قبضے کو طول دینے کے لیے پیرس حکومت نے سن 1954 اور 1962 کے درمیان ایک طویل گوریلا جنگ لڑی۔
الجزائر حکام کے مطابق اس جنگ میں دَس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ فرانسیسی مؤرخین کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ڈہائی لاکھ کے قریب تھی۔
ایردوآن کا کہنا تھا، ’’سارکوزی کا والد سن 1945 میں الجزائر میں بھیجی جانے والی افواج میں شامل تھا اور اسے اس قابل ہونا چاہیے تھا کہ وہ ’قتل عام‘ کے بارے میں اپنے بیٹے کو بتاتا۔‘‘
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی