1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانسیسی مہاجر بستی میں جھڑپیں، کیمپ نذر آتش

عاطف توقیر روئٹرز
11 اپریل 2017

فرانس میں ایک مہاجر بستی میں گزشتہ شب مہاجرین کے درمیان لڑائی جاری رہی، جب کہ اسی تناظر میں گراند سینتھ نامی اس مہاجر بستی میں تارکین وطن کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2b295
Frankreich Brand in Flüchtlingslager nahe Dünkirchen
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen

منگل کی صبح مقامی حکومتی اہلکاروں نے ان جھڑپوں اور مہاجرین کی بستی میں آتش زدگی کے واقعے کی تصدیق کر دی۔

شمالی فرانسیسی علاقے ڈنکِرک (Dunkirk) میں واقع اس Grande-Synthe نامی مہاجر بستی کا قیام ایک برس قبل عمل میں آیا تھا اور یہاں تارکین وطن کے لیے لکڑی سے تیارہ کردہ کمرے اور نکاسی آب کی بہتر سہولیات فراہم کی گئی تھیں جب کہ یہاں قریب 15 سو تارکین وطن آباد ہیں، جن میں سے اکثریت کرد باشندوں کی ہے۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی آمد کے بعد اس مہاجر بستی کی آبادی میں اضافہ ہو گیا تھا۔

شمالی فرانسیسی علاقے کے ایک حکومتی عہدیدار مِشیل لالاند نے بتایا، ’’اس کیمپ کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ یہاں لڑائی افغان اور کرد تارکین وطن کے درمیان ہوئی۔‘‘

Frankreich Brand in Flüchtlingslager nahe Dünkirchen
ان جھڑپوں میں متعدد مہاجرین زخمی ہو گئےتصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen

یہ بات اہم ہے کہ یہ مہاجر بستی گزشتہ برس کیلے کے مہاجر کیمپ کے خاتمے کے بعد قائم کی گئی تھی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں کیلے کی مہاجر بستی ختم کر دی گئی تھی۔ فرانسیسی ساحلی شہر کیلے کے نواح میں قائم مہاجر بستی میں وہ تارکین وطن مقیم تھے، جو چینل ٹنل کہلانے والے سمندری راستے کے ذریعے برطانیہ پہنچنے کے خواہش مند تھے۔

یہ بات اہم ہے کہ غربت اور جنگی تنازعات کے شکار ممالک اور خطوں سے تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد یورپ پہنچی ہے، جب کہ ان تارکین وطن کا ایک ٹھکانہ فرانس بھی ہے۔ اسی تناظر میں فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف رہنما مارین لے پین نے بھی عوامی توجہ حاصل کی ہے اور وہ دو ہفتے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ایک اہم امیدوار کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔

لے پین نے منگل کے روز ایک مرتبہ پھر کہا کہ اگر وہ برسراقتدار آ گئیں تو وہ ملکی سرحدوں کے قریب واقع تمام مہاجر بستیاں ختم کر دیں گی اور ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی کر دی جائے گی۔