1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فحش مواد غائب کر دو لیکن پاپا کا نام نہ آئے

عدنان اسحاق13 اگست 2015

ایک وقت تھا کہ جب فحش مواد کے شوقین رسالے خریدا اور جمع کیا کرتے تھے۔ اب انٹرنیٹ کے ذریعے یہ شوق پورا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اب لندن کی ایک کمپنی نے پرانے فحش رسائل و جرائد جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GEwc
تصویر: AP

تصور کیجیے کہ کسی کے والد کا انتقال ہو گیا اور مرحوم کے بیٹے کو اپنے والد کے کمرے کی صفائی کے دوران الماری کے کسی خفیہ خانے یا بستر کے نیچے سے عریاں رسالوں کا ایک بنڈل ملے۔ ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ شرمندگی کی وجہ سے والدہ کو بتایا نہیں جا سکتا اور ان رسالوں کو پھینکنا بھی مناسب نہیں۔ اس مسئلے کا حل اب ایک برطانوی کمپنی ’Webuyanyporn ‘ نے نکالا ہے۔ نو ماہ قبل قائم ہونے والی یہ کمپنی ایسے پریشان کن مواقعوں پر شرمندگی سے بچانے کے لیے ہی قائم ہوئی ہے۔

کمپنی کے مالک ڈیو نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ایک خاص نسل کے مرد دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ ان کی ایک خاص تعداد اس طرح کے میگزینز کی شائق تھی اور یہ لوگ ان جریدوں کو محفوظ بھی کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر پلے بوائے اور پینٹ ہاؤس وغیرہ۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسے بہت سے میگزین لوگوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ اگر کسی کو عریاں میگزین، فلمیں یا پوسٹر گھر میں ملتے ہیں تو وہ پچپن سالہ ڈیو کو فون کر سکتا ہے۔ ڈیو کے بقول وہ ایک عام شخص کی طرح صارف کے پاس جا کر یہ سامان خرید لیتے ہیں۔

Playboy Gründer Hugh Hefner mit Playmates
تصویر: AP

ڈیو مزید بتاتے ہیں کہ کام کے مواد کو وہ شمالی لندن میں اپنی دکان پر فروخت کے لیے رکھ دیتے ہیں جبکہ بقیہ کو پھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ابھی اس کمپنی کو قائم ہوئے ایک سال بھی نہیں گزرا ہے اور اس کے صارفین میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک صارف فریڈی کے بقول، ’’میرے والد کے انتقال کے بعد میری بہن کو گھر کی صفائی کے دوران ان کے جمع کیے ہوئے میگزینز کا ذخیرہ ملا۔ اس صورتحال میں وہ پریشان بھی ہوئی اور اس نے والدہ کو بھی نہیں بتایا۔‘‘ فریڈی کے بقول اس موقع پر ’Webuyanyporn ‘ نے انہیں اس مسئلے سے باہر نکالا۔ ڈیو گزشتہ چالیس برسوں سے فحش اور عریاں مواد کی خرید و فروخت کا کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص کے جمع کیے ہوئے رسالے انہوں نے خریدے تھے اور وہ رقم اس کے تدفین میں کام آئی تھی۔