1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاٹا اصلاحات، علاقائی اور انتظامی انضمام میں سست روی

24 اکتوبر 2017

پاکستان میں فاٹا کہلانے والے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے عمل میں اب تک بہت سست رفتار پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سست روی کی ایک وجہ حکومت کی سیاسی مجبوریاں اور مصلحتیں بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2mNzB
Karte Stammesgebiet Pakistan

 

فاٹا کے قبائلی علاقوں میں انتظامی اصلاحات کی سوچ کا آغاز دو ہزار پندرہ میں اس وقت ہوا تھا، جب اس دور کے وزیر اعظم نوازشریف نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی فاٹا اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے قبائلی ایجنسیاں کہلانے والے ان تمام ساتوں علاقوں کے دورے کرنے کے بعد سن 2016 میں اپنی ایک رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فاٹا کے کئی ملین باشندے اپنے علاقوں کے صوبے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے خواہش مند ہیں۔

Pakistan Shah Ji Gul Afridi
اصلاحات کے بعد، جس طرح اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہر ایک مسلمہ قانونی نظام کے تحت چل رہے ہیں، اسی طرح فاٹا میں بھی ترقی ہو گی، شاہ جی گل آفریدی تصویر: privat

تب قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان نے، جو اب بھی وفاقی پارلیمان کے رکن ہیں، فاٹا میں ان اصلاحات کی حمایت کی تھی۔ ان قانون سازوں نے شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں ایک کانفرنس میں شرکت بھی کی تھی، جس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ وفاق کے زیر انتظام ان قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔

اس سلسلے میں موجودہ حالات میں ڈی ڈبلیو نے پاکستانی قومی اسمبلی کے رکن شاہ جی گل آفریدی کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا کہ مجوزہ اصلاحات سے فاٹا اور اس کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے، تو انہوں نے کہا، ’’فاٹا اصلاحات کے نفاذ سے سب سے پہلے تو وہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت مل جائے گی۔ اس لیے کہ پاکستان میں صرف قبائلی علاقے ہی ایسے خطے ہیں، جہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی کوئی کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔‘‘

تعلیم کے شعبے میں بلوچستان اور فاٹا سب سے پیچھے

فاٹا اصلاحات، قبائلی خواتین کو کیا ملا؟

خیبر ایجنسی: پابندی کے بعد منشیات کے کاروبار میں جدت

پاکستان کی قومی پارلیمان کے ایوان زیریں کے اس رکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان اصلاحات کے بعد، جس طرح اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہر ایک مسلمہ قانونی نظام کے تحت چل رہے ہیں، اسی طرح فاٹا میں بھی ترقی ہو گی۔ اس ترقی کا براہ راست فائدہ فاٹا کی مقامی آبادی کو پہنچے گا۔ انہیں روزگار کے بہتر مواقع میسر آ سکیں گے، تعلیمی شعبہ بھی ترقی کر سکے گا۔ اس طرح خوشحالی آئے گی تو مقامی اور ملکی سطح پر معیشت بھی بہتر ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہر لحاظ سے سود مند رہے گا اور مثبت نتائج کی وجہ بنے گا۔‘‘

Treffen des Sipah-Stamms in Pakistan
تصویر: DW/F. Khan

اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسلام آباد میں موجودہ وفاقی حکومت مجوزہ فاٹا اصلاحات پر تیز رفتاری سے عمل درآمد کرے گی، رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کہا، ’’عمل درآمد ہو جائے گا۔ ہمیں حکومت کی نیت یا کاوشوں پر کوئی شبہ نہیں۔ لیکن میرے خیال میں حکومت کے لیے مسئلہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ ان اصلاحات کے سلسلے میں اب تک جو کچھ کیا جا چکا ہے، وہ بھی بہت کم نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے ان اصلاحات پر عمل درآمد، جو وہ کرنا چاہتی ہے، اس لیے بھی بہت بڑی کامیابی ہو گی کہ یہ کام گزشتہ سات عشروں میں کوئی بھی وفاقی حکومت نہیں کر سکی تھی، کیونکہ کسی نے اس عمل کا آغاز ہی نہیں کیا تھا۔‘‘

فاٹا کہلانے والے قبائلی علاقوں میں سے ایک باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن حاجی بسم اللہ خان سے جب ڈی ڈبلیو نے یہ پوچھا کہ ان کے بارے میں سیاسی سطح پر تاثر یہ ہے کہ وہ ان اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں، تو انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہم ان اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں ایک سا قانون ہونا چاہیے۔ صرف ہمارے لیے ہی مختلف قانون کیوں ہے۔‘‘

حاجی بسم اللہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’فاٹا کے موجودہ انتظامی ڈھانچے کی تحلیل مرحلہ وار ہونی چاہیے۔ اس کی ابتدا ایف آر سی نامی ضوابط کے خاتمے سے ہونی چاہیے۔ یہ ایک کالا قانون ہے، جس کا خاتمہ پورے فاٹا کے عوام کی خواہش ہے۔ اس کے علاوہ ان سب علاقوں میں ایک ریفرنڈم بھی کرایا جا سکتا ہے۔ عوام سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ پھر ان کی خواہشات کی روشنی میں ہی فیصلے کیے جائیں۔‘‘

پاکستان: قبائلی بچوں کا تاریک مستقبل

فاٹا کو صوبے کا درجہ دیا جائے: پاکستانی سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی

’بکس آن وہیلز‘ فاٹا میں کتابوں کے فروغ کا منفرد منصوبہ

پاکستانی قبائلی علاقوں میں مجوزہ انتظامی اصلاحات کے اس عمل کو ذرائع ابلاغ کے نمائندے کیسے دیکھتے ہیں؟ اس بارے میں ڈوئچے ویلے نے اسی موضوع پر کام کرنے والے صحافی احمد اللہ سے جب یہ پوچھا کہ یہ اصلاحات کب تک مکمل ہو سکیں گی، تو انہوں نے کہا، ’’میری رائے میں تو مسلم لیگ نون اپنے دور حکومت میں فاٹا کو کبھی بھی صوبے خیبر پختونخوا کا حصہ نہیں بنائے گی۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کے چند مطالبات شاید مان لیے جائیں گے، جیسے کہ پشاور ہائی کورٹ اور ملکی سپریم کورٹ کی قانوی اور جغرافیائی عمل داری کو فاٹا تک پھیلا دینا۔ اس کے علاوہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کا کچھ حصہ بھی فاٹا کو علیحدہ سے دیا جا سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک صوبائی اسمبلی میں ان علاقوں کو نشستیں دینے کی بات ہے، تو وہ شاید نہیں دی جائیں گی۔ اسی طرح ان علاقوں پر مشتمل، جیسا کہ کچھ حلقے مطالبہ بھی کرتے ہیں، کبھی بھی کوئی علیحدہ صوبہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقے افغان سرحد سے دور نہیں اور پھر بات پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی معاملات تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

Radio Khyber in Fata
تصویر: DW/D. Baber

انہی پاکستانی قبائلی علاقوں کی صورتحال پر قریب سے نگاہ رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار محمد اقبال خان نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں یہ اصلاحات ناگزیر ہیں اور ان میں تاخیر تشویش کا باعث۔ انہوں نے کہا، ’’آئین کے تحت ملک کے تمام شہریوں اور علاقوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ لیکن فاٹا کے قبائلی عوام کو برابر کے کوئی حقوق حاصل نہیں۔ اب چونکہ کافی حد تک اتفاق رائے موجود ہے کہ سیاسی عمل کے ‌ذریعے ان اصلاحات کو عملی شکل دی جائے اور فاٹا کے عوام کو بھی ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہییں، تو اس عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا اور بھی ضروری ہو چکا ہے۔‘‘

اس اصلاحاتی عمل کا اہم ترین پہلو کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں محمد اقبال خان نے کہا، ’’اہم ترین پہلو قبائلی عوام کی سیاسی اور سماجی ترجیحات کا تعین اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ چاہے وہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی حمایت کریں یا ان علاقوں پر مشتمل نئے صوبے کے قیام کی، اصل بات فاٹا کے عوام کو برابر کے حقوق دینا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اصلاحات کو تاخیری حربوں سے روکنے کے بجائے انہیں تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے۔‘‘

 

نوجوانوں کے ليے ايک موقع، فاٹا يونيورسٹی