1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غلطی کسی کی ، بھگتے کوئی

5 جنوری 2010

دنيا کے مختلف ممالک کی خفيہ ايجنسياں آئے دن غلطياں کرتی رہتی ہيں اور ان کا خميازہ عموماًسیاسی رہنماؤں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/LLiZ
تصویر: DW/AP/Bilderbox.de

حال ہی ميں امريکہ ميں ايک طيارے ميں بم دھماکے کی ناکام کوشش کے بعد خفيہ اداروں کی نا اہليت کے اشارے ملے اور صدر اوباما کو تنقيد بھی سننا پڑی ہے۔ جرمن خفيہ اداروں سے بھی غلطياں ہوتی رہتی ہيں۔ اس حوالے سے ماہرين کی ايک کميٹی تشکیل دی گئی ہے ، جو ایسے واقعات کی چھان بين کر رہی ہے۔

جرمنی کے ايک سابق چانسلر ہیلموٹ شوٹ نے ايک بار کہا تھا کہ انہيں اپنی خفيہ ايجنسيوں کے ذريعے اس سے بھی کم خبريں ملتی ہیں، جتنی کہ وہ اخبار نوئے سيورشر سائٹنگ کے مطالعے سے حاصل کرتے ہيں۔

جرمنی کی ہانس زائڈل فاؤنڈيشن نے جرمن خفيہ اداروں کی کارکردگی کے جائزے کے لئے حال ہی ميں اس شعبے کے ماہرين کی ايک کانفرنس کا اہتمام کيا، جس ميں جرمن خفيہ ايجنسی بی۔این۔ڈی کے ايک سابق سربراہ نے ہیلموٹ شمٹ کے ان الفاظ کا حوالہ ديا۔ ليکن انہوں نے يہ بھی کہا کہ شايد دنيا کے کسی بھی دوسرے ملک ميں خفيہ اداروں کی اتنی کڑی نگرانی نہيں کی جاتی جتنی کہ جرمنی ميں۔

سوئٹزرلينڈ کےخفيہ اداروں کے ماہر اور اخبار نوئے سيورشر سائٹنگ کے مدير ايرک گوير نے کانفرنس ميں کہا: ’’ اب سرد جنگ کے دور کی سی صورتحال نہيں رہی۔ تب ہم فريق مخالف کے منصوبوں کا اندازہ لگا سکتے تھے۔ ليکن اب خفيہ اداروں کو ايک مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔وہ اب پہلے کی طرح صحيح رد عمل ظاہر نہيں کرسکتے۔‘‘

تاہم گوير نے مزیدکہا کہ خفيہ اداروں کی اپنی غلطياں بھی ہيں اور ان ميں جرمن خفيہ سروسز پيش پيش ہيں۔ يہاں خفيہ اداروں ميں دفتری ضابطہ پرستی کا زور ہے اور يہ ادارے اپنی جمع کی ہوئی معلومات کے تجزيے کے سلسلے ميں اعلی معيار کا لحاظ بھی نہيں رکھتے۔ ليکن جرمن خفيہ اداروں کے پاس عملے کی بھی کمی ہے اور انہيں کم مالی وسائل مہيا کئے جاتے ہيں۔ نتيجہ يہ ہے کہ وہ ايک تباہ کن واقعے سے دوسرے کی طرف بڑھتے رہتے ہيں۔

خفيہ اداروں کے کارکن ہزاروں صفحات پر مشتمل معلومات اکٹھی کرتے ہيں جنہيں چھان بين کے بعد آگے بھيجا جاتا رہتا ہے۔ ظاہر ہےکہ خفيہ اداروں کی کاميابی يا ناکامی کا انحصار صرف ان کی حاصل کردہ اطلاعات کے معيار ہی پر نہيں بلکہ اس پر بھی ہوتا ہے کہ سياستدان ان اطلاعات کو استعمال کرنے پر آمادہ بھی ہيں يا نہيں اور وہ خفيہ اداروں سے مشورے ماننے کے لئے کس حد تک تيار ہيں۔

Symbolgrafik: FBI und Kapitol
خفیہ ایجنسیوں اور سیاستدانوں کےمابین تعاون لازمی ہےتصویر: AP

خفيہ اداروں کی جمع کردہ معلومات کی خفيہ اور حساس نوعيت کی وجہ سے سياسی سربراہوں کو بذريعہ تحرير مطلع نہيں کيا جا سکتا۔ بلکہ ذاتی طور پر انہيں اطلاع دی جاتی ہے۔

خفيہ اداروں کے سربراہان کا تجربہ کار ہونا لازمی ہے تاکہ ان کی بات کو سنجيدگی سے سنا جائے۔تاہم لمبا تجربہ بھی اس کی ضمانت نہيں ہے کہ ان کی رائے کسی سياسی رہنما کی، دنيا کے بارے ميں قائم تصوير ميں سما نہ سکے۔ جرمن سيکريٹ سروس کے ايک سابق سربراہ ويک نے کہا: ’’ يہ خطرہ ہميشہ ہی ہوتا ہے۔ ليکن اگر کسی کو عالمی سطح کا ذاتی تجربہ حاصل ہے تو اس کی رائے کو سنجيدگی سے اہميت دی جاتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزيد کہا کہ خطرات آج بھی بہت زيادہ ہيں ليکن اب بھی ان کا بروقت پہچاننا ممکن ہونا چاہئے۔ ويک کے بقول انسان جو منصوبے بناتے ہيں انہيں انسان ہی پہچان بھی سکتے ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عدنان اسحاق