1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غریب طالب علموں کے لیے ’ارزاں چاچا‘ کی دوکان

فرید اللہ خان، پشاور4 جنوری 2016

ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن کو بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا ہے لیکن ’ارزاں چاچا‘ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے سٹیشنری کی دوکان کھولی اور کئی برسوں سے کالج کے طالب علموں کو رعایتی نرخوں پر اشیاء فراہم کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HTl0
Pakistan Lokale Helden Syed Bacha Arzan Chacha
تصویر: DW

پینشن کی رقم ملنے کے بعد زیادہ تر لوگ اسے اپنے بڑھاپے کو بہتر بنانے یا پھر اسے اپنے بچوں کے مستقبل سنوارنے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں لیکن سید باچا ان سب سے مختلف ہیں۔ سید باچا اسلامیہ کالج پشاور کے قریب ری کریشن سینٹر میں ’’ارزان چاچا‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ اٹھائیس سال قبل اسلامیہ کالج سے ریٹائر ہوئے۔

ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے، ’’پہلے میں فوج میں تھا، وہاں سے ریٹائر ہوا تو اسلامیہ کالج میں سکیورٹی گارڈ بھرتی ہوا اور یہاں ملازمت کے دوران کالج میں پڑھنے والے بعض بچوں کے مسائل دیکھتا رہا لیکن ان کے لئے کچھ نہ کرسکا۔ دل میں ایک خواہش تھی کہ ان بچوں کی مدد کروں لیکن کوئی موقع ہاتھ نہیں آیا، ایسے میں جب ریٹائرمنٹ ملی تو سٹیشنری کی دوکان کھولنے کا خیال آیا۔ اس وقت کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر فدا اور ڈاکٹر اسرار سمیت دیگر اساتذہ نے ساتھ دیا اور یہاں ایک جگہ فراہم کی، جہاں میں نے یہ دکان کھول لی اور تب سے لیکر آج تک اسے چلا رہاہوں۔‘‘

Pakistan Lokale Helden
’ارزان چاچا‘ کی دکان پر نہ صرف طلباو طالبات کا رش ہوتا ہے بلکہ اساتذہ بھی وہاں سے اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیںتصویر: DW

’ارزان چاچا‘ کی دکان پر نہ صرف طلباو طالبات کا رش ہوتا ہے بلکہ اساتذہ بھی وہاں سے اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں۔ ان کی دکان کی خوبی یہی ہے کہ فروخت کی جانے والی اشیاء سے منافع نہیں کمایا جاتا۔ اسی طرح ان کی دکان سے نادار اور یتیم طلبا و طالبات اپنی ضرورت کی ہر چیز مفت حاصل کرسکتے ہیں۔ ارزان چاچا کا کہنا ہے’’خود تعلیم حاصل نہ کر سکا لیکن ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ پڑھنے والے ان بچوں کی کسی نہ کسی طرح مدد کروں۔ اسلامیہ کالج سے بطور سکیورٹی گارڈ ریٹائر ہوا تو کچھ پنشن کی رقم ملی اور کچھ قرض لیا اور یہ دکان شروع کی۔ کافی سارے بچے جو یہاں آتے تھے، آج بڑے افسر بن چکے ہیں، وہ کبھی کبھار یہاں ملنے بھی آتے ہیں، اس سے خوشی ہوتی ہے اور سکون سا ملتا ہے، جو دولت سے ممکن نہیں۔‘‘

Pakistan Lokale Helden
سید باچا اسلامیہ کالج پشاور کے قریب ری کریشن سینٹر میں ’’ارزان چاچا‘‘ کے نام سے مشہور ہیںتصویر: DW

سید باچا کا بنیادی تعلق صوبہ پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک سے ہے لیکن انہوں نے عمر کا زیادہ حصہ اسلامیہ کالج پشاور میں گزار ہے، یہی دکان ان کا گھر بھی ہے، جہاں وہ اپنے لئے کھانا وغیرہ خود تیار کرتے ہیں اور اسی دکان میں ان کی راتیں بسر ہوتی ہیں۔ انہوں نے اس دکان کا نام بھی اپنے آبائی علاقے کے نام پر رکھا ہے لیکن اسٹوڈنٹس میں وہ ارزان چاچا کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ اب تک ہزاروں کی تعداد میں طلبا و طالبات کی مدد کر چکے ہیں۔ ایک اسٹوڈنٹ صالح محمد کا کہنا تھا، ’’دوسروں کے مقابلے میں یہاں سے تمام اشیاء انتہائی کم قیمت پر ملتی ہیں، دوسرا یہ کہ چاچا آپ کو پنسل، بال پین، ربڑ اور اسطرح کی چھوٹی موٹی چیزین مفت دیتے ہیں۔کئی طلبا کی مدد کرتے ہیں لیکن ان کے نام سامنے نہیں لاتے بلکہ چپکے سے ان کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔‘‘

Pakistan Lokale Helden
ان کی دکان کی خوبی یہی ہے کہ فروخت کی جانے والی اشیاء سے منافع نہیں کمایا جاتاتصویر: DW

سید باچا کہتے ہیں، ’’میرا عقیدہ ہے کہ میرے رزق کی ‌ذمہ داری اللہ کی ہے۔ میری زندگی کا مقصد ان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ ایسے والدین کی مدد کروں، جنہیں بچوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو کتابوں کی ضرورت ہو یا کسی کو ہنگامی حالت میں پیسوں کی ضرورت ہو تو وہ پورا کرکے خوشی ہوتی ہے۔سید باچا اپنی کمائی کا زیادہ حصہ بچوں کی تعلیم اخراجات پورا کرنے پر خرچ کر رہے ہیں۔

اسی سالہ چاچا ارزاں کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ان کے مخالف بھی ہیں، ’’ان لوگوں کا موقف ہے کہ میں سستی اشیاء بیچ کر مارکیٹ خراب کر رہا ہوں۔ انہوں نے کالج انتظامیہ کو بھی لکھا ہے، جس پر کالج انتظامیہ نے نوٹس بھی دیے لیکن مخالفین کی بجائے میرا ساتھ دینے والے بہت زیادہ ہیں۔ میرا بھی بنیادی مقصد یہ ہے کہ خود تو نہ پڑھ سکا لیکن دوسروں کو پڑھے بغیر دیکھ نہیں سکتا۔ کوشش ہے کہ تمام بچے پڑھ لکھ جائیں اور چھوٹی موٹی مشکل کی وجہ سے ان کی پڑھائی ختم نہ ہو جائے۔‘‘

سید باچا طالب علموں کی طرف سے سیاست میں حصہ لینے کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’سیاست کی وجہ سے طالب علموں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، جس کے اثرات دیگر طلباء پر بھی پڑتے ہیں۔‘‘