1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ليگ کا شام کا مشن ناکام رہے گا: ڈوئچے ويلے کا تبصرہ

29 دسمبر 2011

عرب ليگ کے جو مبصرين شام پہنچے ہيں اُن کا مقصد مخالفين پر اسد حکومت کے تشدد کو روکنا ہے۔ ليکن جو حالات نظر آ رہے ہيں، اُن کے مطابق يہ مشن کامياب نہيں ہوگا اور حکومت کا ظلم جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/13bPY
عرب ليگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس
عرب ليگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاستصویر: picture-alliance/dpa

شروع ميں 150 نہيں بلکہ 500  مبصرين بھيجے جانے کا پروگرام تھا۔ شام رقبے کے لحاظ سے ايک بڑا ملک ہے اور اس کے تقريباً آدھے علاقے ميں خانہ جنگی سے مشابہ حالات پائے جاتے ہيں۔ اس طرح عرب ليگ کے ان مبصرين کا کام آسان نہيں، خصوصاً اس ليے بھی کہ شامی سکيورٹی فورسز ان کی راہ ميں رکاوٹيں بھی ڈال رہی ہيں۔ اگرچہ اسد حکومت نے فی الحال بغاوت کے گڑھ حُمص سے ٹينک ہٹا ليے ہيں، ليکن انہيں تيار رکھا جا رہا ہے تاکہ مبصرين کے اس چھوٹے سے گروپ کے ہٹتے ہی انہيں دوبارہ اپنے مقامات پرلايا جا سکے۔

قابل ذکر بات يہ ہے کہ عرب ليگ کے مبصرين کو فوجی تنصيبات تک رسائی حاصل نہيں ہے۔ اس ليے يہ امکان ہے کہ عرب ليگ کو جن سياسی قيديوں کی رہائی کی نگرانی کرنا ہے، اُنہيں ان فوجی تنصيبات ميں منتقل کر ديا گيا ہے۔ عرب ليگ کے اس مشن کے شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی شامی حکومت کی چھوٹی اور بڑی چالبازيوں کی خبريں موصول ہونے لگيں تھيں۔ بعض مقامات کے ناموں کی تختياں تک بدل دی گئی ہيں تاکہ مبصرين کو بغاوت کے دوسرے مراکز کی طرف جانے سے روک ديا جائے۔ اس کے علاوہ اس مشن سے اس ليے بھی کوئی خاص اميد نہيں رکھی جا سکتی کيونکہ اس کی قيادت سوڈانی جنرل الدابی کر رہے ہيں، جنہوں نے دارفور ميں انسانی حقوق کا کوئی احترام روا نہيں رکھا تھا۔

حمص کی سڑک پر شامی فوجی ٹينک
حمص کی سڑک پر شامی فوجی ٹينکتصویر: dapd

اس ماہ کے آخر تک شام ميں قيام کرنے والے ان 150 مبصرين ميں شام کے ہمسايہ ممالک لبنان، عراق اور اردن سے تعلق رکھنے والے بہت سے مبصرين بھی شامل ہيں۔ ان ممالک نے شام پر لگائی جانے والی عرب ليگ کی پابنديوں تک پر بھی عمل نہيں کيا ہے۔ اس کے باوجود شامی حکومت نے مبصرين کے اس مشن کی اجازت بہت مشکل ہی سے دی ہے۔ اسد حکومت اس پر اُس وقت راضی ہوئی تھی، جب روس نے سلامتی کونسل ميں ايک قرارداد منظور کرانے کی دھمکی دی تھی۔

سوڈانی جنرل الدابی
سوڈانی جنرل الدابیتصویر: picture-alliance/dpa

عرب ليگ کے مبصرين کا يہ مشن شامی اپوزيشن کی کوئی مدد نہيں کر سکے گا بلکہ اس کا انحصار بڑی حد تک اس پر ہوگا کہ اپوزيشن ملکی اقليتوں کو يہ يقين دلانے ميں کامياب ہوتی ہے يا نہيں کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ايک ظالمانہ  سنی حکومت قائم نہيں ہوگی، جس سے اقليتيں کم ازکم اُتنی ہی خائف ہيں، جتنی کہ اسد حکومت سے۔

تبصرہ: ڈانيئل شيشکيوٹس / شہاب احمد صديقی

ادارت: حماد کيانی      

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں