1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کی جنگ کے چھ سال

عدنان اسحاق20 مارچ 2009

آج سے ٹھیک چھ برس قبل امریکی دستے عراق میں داخل ہوئے تھے۔ عراق میں پیش قدمی کی وجہ صدام حسین اور وسیع پیمانے تباہی کا باعث بنے والے ہتھیارتھے۔

https://p.dw.com/p/HGPM
امریکہ نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو بنیاد بنا کر حملہ کیا تھاتصویر: AP / DW-Fotomontage

بعد ازاں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو یہ اقرارکرنا پڑا یہ سب کچھ حقیقت پر مبنی نہیں تھا اور راق میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ اب امریکہ کی کوشش ہے کہ ان کی افواج کی عراق سے اس طرح سے واپسی ہو کہ وہاں کوئی افراتفری نہ پھیلے۔ عراق میں امن وامان کی صورتحال ابھی بھی قابل بھروسہ نہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں منقسم ہیں اور انتہاپسند کسی بھی وقت دوبارہ متحد ہو سکتے ہیں۔

20 مارچ سن 2003 کو علی الصبح بغداد پر بمباری شروع ہوئی تھی۔ اس کے آدھے گھنٹے بعد امریکی صدر بش نے پوری دنیا کے سامنے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ عراق کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر بارہا صدام حسین کی حکومت کو ختم کرنے کی دھمکی دے چکے تھے کیونکہ صدام حسین پر یہ الزامات تھے کہ انہوں نے کویت عراق جنگ کے دوران عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتیھار بنا رہ تھے اور ساتھ ہی یہ کو صدام حسین عالمی دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ عراق میں فوجی کارروائی کی اجازت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے جواب کا انتظار کیا گیا۔ اس دوران امریکہ کے نئے اتحادی بنے اور پرانے حلیف ساتھ چھوڑتے گئے،جیسا کہ جرمنی اور فرانس جنہوں نے عراق پر فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔

Demonstration der globalisierungskritischen Organisation Attac in Köln
جرمنی میں عراق جنگ پر احجاجی مظاہرے کا منظرتصویر: AP

نو اپریل 2003 تک فوجی کارروائی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہی اوریہی دن تھا صدام حسین کی حکومت کے خامتے کا۔ صدر بش نے عراق میں کامیابی کا اعلان کیا لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کامیابی بہت دور ہے۔ امریکی حکام نے عراق میں فوری طور پرجمہوریت کے قیام کی کوششیں شروع کردی۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ واشنگٹن کا اولین مقصد وہاں جمہوریت لانا نہیں تھا بلکہ خطے پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا ،عراقی تیل اور اسرائیل کا دفاع بھی اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ ساتھ ہی امریکی حکومت ایران پر بھی کڑی نظر رکھنا چاہتی تھی۔ تا ہم عراق میں حکمت عملی کے حوالے سے واشنگٹن حکومت سے کئی شدید نوعیت کی غلطیاں ہوئیں۔ پہلی یہ کوہ عراق میں کوئی ایک قوم آباد نہیں بلکہ وہاں کئی گروپ موجود ہیں جن میں سنی ، شیعہ ، کرد اور کرسچن شامل ہیں۔ عراق میں اقتدار کے بٹوارے کا مسئلہ کافی سنگین تھا۔ جبکہ دوسری غلطی عراقی افواج کی تحلیل تھی۔ لیکن عراق پر امریکی حملے کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس جنگ کو یہ کہ کر شروع کیا گیا تھا کہ بغداد حکومت وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہی ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی شواہد مل سکے کہ بغداد حکومت کا دہشت گردوں کے ساتھ یا 11 سمتبر سے کوئی تعلق ہے۔

امریکی افواج کو عراق فتح کرنے میں تین ہفتے بھی نہیں لگے تھے۔ لیکن وہاں سے انخلاء میں کتنا وقت لگے گااس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ۔ امریکی صدر باراک اوباما کے مطابق سن 2010 تک امریکی دستے عراق خالی کر دیں گے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا کہ کہ اوباما کا یہ منصوبہ کس حد تک قابل عمل ہے۔