عراق پر امریکی حملے کا قانونی جواز نہیں تھا: ہالینڈ تحقیقاتی کمیشن
12 جنوری 2010ڈَچ آزاد کمیشن کو امریکی سربراہی میں لڑی جانے والی عراق جنگ میں ہالینڈ کے کردار کی چھان بین کا کام سونپا گیا تھا۔ اس تحقیقاتی پینل کے مطابق دی ہیگ نے عراق حملے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تاہم پینل کا کہنا ہے کہ امریکہ کے سابق صدر جورج ڈبلیو بُش کے عراق پر حملہ کرنے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے ڈَچ حکومت نے آئینی معاملات کی بجائے سیاسی معاملات کو ترجیح دی۔
تحقیقاتی کمیشن کے چیئرمین ولی برورڈ ڈیوڈز نے دی ہیگ میں صحافیوں کو بتایا کہ بین الاقوامی قوانین عراق جنگ کے لئے کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتے تھے تاہم ان کے مطابق ہالینڈ حکومت نے’’اس غیرمقبول جنگ کی عسکری نہیں بلکہ سیاسی حمایت کی۔‘‘ کمیشن کے مطابق ٹھوس بنیاد کی عدم موجودگی کے باوجود جورج بُش کے جنگ کے فیصلے کی حمایت کی گئی۔
کمیشن کے چیئرمین نے مزید بتایا کہ منطقی طور پر اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1441 کے الفاظ کی تشریح اُس طرح سے نہیں ہو سکتی ہے،جس طرح عراق میں امریکی فوجی مداخلت کے وقت ہالینڈ حکومت نے کی۔’’اقوام متحدہ کی قرارداد 1441 کی تشریح یہ نہیں ہے کہ سلامتی کونسل کے چند رکن ممالک کونسل کی قرار دادوں کے اطلاق کے لئے کسی دوسرے ملک کے خلاف فوجی کارروائی کریں۔‘‘
سلامتی کونسل نے سن 2002ء میں یہ قرار داد منظور کرتے ہوئے عراق کو ’’تخفیف اسلحہ کے ضوابط پورے کرنے کا آخری موقع‘‘ فراہم کیا تھا۔
اپوزیشن کے سخت دباوٴ کے پیش نظر ڈَچ حکومت نے عراق جنگ میں ہالینڈ کے کردار کی چھان بین کے لئے ایک آزاد تحقیقاتی پینل تشکیل دیا، جس نے گزشتہ برس مارچ سے اپنا کام شروع کیا تھا۔
نیدرلینڈ یا ہالینڈ نے عراق میں امریکی فوجی مداخلت کے بعد جولائی سن 2003ء میں اپنے تقریباً گیارہ سو فوجی اہلکارعراق روانہ کئے، جو سن 2005ء میں واپس وطن لوٹے۔
تازہ تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عراق جنگ سے متعلق ہالینڈ کی خارجہ پالیسی اُس وقت کے وزیر خارجہ یاپ دے ہوپ شیفر نے ترتیب دی۔ شیفر بعد میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل بھی بنے۔
تحقیقاتی پینل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہالینڈ کی حکومت نے عراق جنگ میں تعاون کے سلسلے میں امریکی درخواست کا پورا متن پارلیمان کے سامنے پیش نہیں کیا، تاہم اِس پینل نے طویل عرصے سے چلی آ رہی اُن افواہوں کو غلط قرار دیا کہ عراق آپریشن میں ہالینڈ کی فوج ملوث تھی۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی