1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی مالیاتی نظام میں رسائی کے لیے ایران کو درپیش مشکلات

اندریاس بیکر ⁄ عابد حسین22 اپریل 2016

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بینک کے اہم اجلاس گزشتہ ہفتے کے دوران امریکی دارالحکومت میں منعقد ہوئے۔ ان اجلاس میں ایران نے عالمی مالیاتی نظام تک رسائی میں پیش آنے والی مشکلات کو خاص طور بحث کے لیے پیش کیا۔

https://p.dw.com/p/1Iamu
ایرانی سینٹرل بینک کا تہران میں واقع ہیڈکوارٹرزتصویر: jamnews

ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی ادارے کی سالانہ بہاریہ میٹنگز میں ایران کے سینٹرل بینک کے گورنر ولی اللہ سیف نے واضح کیا کہ جوہری ڈیل کے بعد بھی اُن کو بین الاقوامی بینکوں کے ساتھ لین دین میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سیف کے مطابق ایران عمومی طور پر ابھی تک اپنے منجمد اثاثوں کو پوری طرح استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ اُن کے ملکی اثاثے جوہری ڈیل کے طے اور پھر مؤثر ہونے کے بعد بظاہر بحال کیے جا چکے ہیں۔ ایران کی عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری ڈیل گزشتہ برس چودہ جولائی کو طے پائی تھی۔

رواں برس جنوری میں جوہری ڈیل کے مؤثر ہونے کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈریکا موگرینی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایران نے جوہری ڈیل پر عمل کر لیا ہے اور اب اِس کے مؤثر ہونے پر ایران پر عائد مالی پابندیوں کو اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیری نے بھی کہا تھا کہ عالمی جوہری خطرے کو انتہائی کم کر دیا گیا ہے اور اِس کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام سے منسلک کثیرالجہتی اور قومی اقتصادی و مالیاتی پابندیوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

پابندیوں کے خاتمے کے تقریباً ایک ہی ماہ بعد فروری میں گلوبل ٹرانزیکشن نیٹ ورک ’سوفٹ‘ (SWIFT) نے اعلان کیا تھا کہ اُس نے ایران کے کئی بینکوں کو دوبارہ اپنے گلوبل نیٹ میں شامل کر لیا ہے اور اِس سے رقوم کی منتقلی عمل بحال کر دیا گیا ہے۔ سوفٹ کے کنٹری مینیجر اونور اوزان کے مطابق بحالی کے عمل کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ مستقبل میں جاری رکھا جائے گا۔ اب ایران کو شکایت ہے کہ اُس کے غیر ملکی بینکوں میں موجود اثاثے پوری طرح بحال نہیں کیے گئے کیونکہ وہ اُن کو استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اِس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ امریکا نے جنوری میں کیے گئے اعلان کے تحت ایران کے تمام مالیاتی اثاثوں کو پوری طرح بحال نہیں کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ ثانوی پابندیاں تھیں جبکہ بنیادی پابندیوں کا ایران کو ابھی بھی سامنا ہے۔

جنوری کے پابندیاں ختم کرنے کے اعلان کے بعد امریکا نے 400 سے زائد افراد اور اداروں کے اثاثے بحال کیے تھے اور اب بھی 200 سے زائد افراد اور کمپنیاں ایسی ہیں جو ابتدائی یا بنیادی پابندیوں کے زمرے میں ہیں۔ ان میں وہ افراد اور بینک ہیں جن کا تعلق اور وابستگی پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ خاص طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اِبتدائی پابندیوں کے تناظر میں یورپی بینکس ایران کے ساتھ مالیاتی ٹرانزیکشن میں ہجکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔

Iran Börse
ایرانی سینٹرل بینک کے گورنر کے مطابق جوہری ڈیل کے بعد بھی بین الاقوامی بینکوں کے ساتھ لین دین میں مشکلات کا سامنا ہےتصویر: picture alliance/AA/Bahrami

جرمنی کے کامرس بینک نے ایک سال قبل ایران کے منجمد ڈیڑھ ارب ڈالر بحال کر کے ریلیز کرنے کا اشارہ تو دیا تھا لیکن اِس پر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ یورپی بینک خاص طور پر انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں کیونکہ سن 2014 میں ایک دو بینکوں کو اربوں ڈالر کے جرمانوں کا سامنا ہوا تھا۔

ایک اور بین الحکومتی مالیاتی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے بھی ایران کو منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے خطرے سے پاک نہیں کیا ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایرانی مرکزی بینک کے گورنر ولی اللہ سیف نے امریکی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام ضروری اقدامات کرتے تا کہ بقیہ پابندیوں سے بھی ایران کو نجات مل سکے اور اُس کے اربوں ڈالر کے منجمد اثاثے بحال ہو سکیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید