1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عادل راجہ کے الزامات کا نشانہ اداکارائیں، فوج یا باجوہ؟

عبدالستار، اسلام آباد
4 جنوری 2023

سابق فوجی افسر اور یوٹیوبر عادل راجہ کی جانب سے فوج پر سنگین الزامات کی پوچھاڑ پر پاکستان میں کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ ان الزامات کو ملک اور فوج کے لیے انتہائی منفی قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Ljqp
MSC Qamar Javed Bajwa  Armeechef von Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe

پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسر میجر عادل راجہ نے اپنے ایک وی لاگ میں سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئی ایس آئی کے کچھ حاضر سروس افسران اور کئی پاکستانی اداکاراؤں پر بھی سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

عادل راجہ کے الزامات نے پاکستان کی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور ملک کے کئی حلقوں میں اس پر بحث ہو رہی ہے۔ کئی مبصرین ان کے الزامات کو ملک اور فوج کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دے رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 'ایسے بے بنیاد الزامات کو پاکستان دشمن عناصر اور ممالک استعمال کر سکتے ہیں۔‘

سابق لیفٹیننٹ جنرل اور سابق سینیٹر عبدالقیوم نے ان الزامات کو انتہائی افسوسناک اور شرمناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک ایسے وقت میں جب ملک کی معیشت بہت برے حال میں ہو، سیاسی صورت حال بھی بہتر نہ ہو، افغانستان میں بھی عدم استحکام ہو اور عالمی معاشی کساد بازاری بھی چل رہی ہو، اس طرح کے الزامات آنا باعث تشویش ہے۔ اس سے ملک کے مسائل میں اضافہ ہوگا کیونکہ پاکستان دشمن طاقتیں اس طرح کے بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر ملک کو بدنام کریں گی‘‘۔

جنرل عبدالقیوم کے مطابق اگر عادل راجہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت تھے تو اسے ملک میں رہ کر کر اس مسئلہ کو مختلف فورمز پر اٹھانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا، '' کسی دوسرے ملک میں رہتے ہوئے اس طرح کے سنگین الزامات لگانا ملک دشمنوں کی مدد کرنے کے مترادف ہے‘‘۔

جنرل عبدالقیوم کا دعوی ہے کہ پاکستان میں آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی ادارے پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لیکن بے بنیاد الزامات لگا کر فوج کی بدنامی کرنا ایک مختلف بات ہے جس کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔

جنرل عبدالقیوم کے خیال میں حکومت کو اس ریٹائرڈ آرمی افسر کو وطن واپس لانا چاہیے۔ ''برطانیہ یا کسی اور ملک کو شہری بھی ماسکو یا کسی اور جگہ پر بیٹھ کر اپنے ہی لوگوں پر بے بنیاد الزامات لگائے، تو وہ بھی ایسے شہری کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں بھی قانونی طریقے سے عادل راجہ کو واپس لانا چاہیے۔‘‘

کیا پاکستان مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے؟

ہتک عزت کے علاوہ کوئی مقدمہ نہیں ہو سکتا

لندن سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر گل نواز خان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں آزادی اظہار رائے ہے اور کوئی بھی شخص اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر بے بنیاد الزامات لگا رہا ہو تو متاثرہ شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ برطانوی عدالت سے رابطہ کرے اور شہرت کو نقصان پہنچانے کے جرم میں اس کے خلاف مقدمہ لڑے‘‘۔

پاکستان حوالگی کا معاملہ

بیرسٹر گل نواز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے۔ ''اگر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان یہ معاہدہ ہوتا تو پاکستان عادل راجہ کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا تھا۔ لیکن ابھی اگر پاکستان ان کی حوالگی کا مطالبہ کرے اور اگر ان کے پاس لندن کا وزٹ ویزہ موجود ہے تو وہ ہوم آفس سے رابطہ کر سیاسی پناہ کی درخواست کرسکتے ہیں ۔ اس صورت میں ان کی سیاسی پناہ کا مقدمہ مضبوط ہو جائے گا کیونکہ ان کے پاس دلیل موجود ہوگی کہ ایک ریاست نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔

انٹرپول کے ذریعے حوالگی

گل نواز خان کا کہنا تھا کہ پاکستان انٹرپول کے ذریعے بھی عادل راجہ کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ''لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب عادل راجہ نے یہاں پہ کوئی جرم کیا ہو اور وہ جرم ثابت بھی ہوا ہو۔ اس کے بعد وہ انٹرپول کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ ایک طویل پیچیدہ قانونی معاملہ ہے‘‘۔

آرمی ایکٹ کا اطلاق

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف وکیل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آرمی ایکٹ کے حوالے سے عادل راجہ کے لیے کوئی سزا نہیں بنتی کیونکہ وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور پاکستانی قانون کے مطابق جب کوئی فوجی ریٹائر ہو جاتا ہے تو اس پر سویلین قوانین کا اطلاق ہوتا ہے‘‘۔

اس وکیل کے مطابق اگر عادل راجہ کو حاضر سروس افسران اطلاعات دے رہے ہیں تو پھر ان افسران کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’حاضر سروس افسران عادل راجہ تو کیا کسی بھی شخص کوفوج سے متعلق کسی بھی طرح کی اطلاع نہیں دے سکتے۔‘‘