1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کا طالبان سے کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ

5 نومبر 2022

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک خاتون سمیت پانچ کارکنوں کو حراست میں لینے اور پھر ان کی جسمانی تلاشی پر اسے ’تشویش‘ لاحق ہے۔ کابل میں خواتین کے حقوق سے متعلق ایک تنظیم کے لانچ کے وقت انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4J6Yl
Afrghanistan Kabul Protest Frauen
تصویر: privat

اقوام متحدہ  نے چار نومبر جمعے کے روز کابل میں گرفتار کیے گئے انسانی حقوق  کے پانچ کارکنوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ جمعرات کے روز خواتین سے متعلق انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا افتتاح کیا گیا اور اسی سے متعلق ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کارکنوں گرفتار کیا گیا تھا۔

افغانستان: طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں میں ہتھیاروں کی جگہ کتابیں

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے ایک ترجمان جیرمی لارنس نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان پولیس نے چار مردوں اور ایک خاتون، ظریفہ یعقوبی کو اس وقت گرفتار کیا، جب وہ خواتین کے حقوق سے متعلق ’افغان وومنز مومونٹ فار ایکویلیٹی‘  کے نام سے ایک گروپ شروع کرنے کے لیے کانفرنس میں شرکت کر رہے تھے۔

لارنس کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس میں شرکت کرنے والی دیگر خواتین کو بھی، مبینہ طور پر ان کی جسمانی اور فون کی تلاشی کے لیے، تقریباً ایک گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان نے کہا،’’ہمیں ان پانچ افراد کی فلاح و بہبود کے بارے میں تشویش لاحق ہے اور ہم نے ان کی حراست کے بارے میں ڈی فیکٹو حکام سے معلومات بھی طلب کی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ گرچہ ملک میں اسلام پسند طالبان کی حکومت ہے، تاہم افغانستان  اب بھی ’’تشدد کے خلاف کنونشن سمیت، بنیادی بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں اور دیگر کنونشنوں کا ایک فریق ہے۔‘‘

لارنس نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ زیر حراست افراد کے حقوق کا احترام کریں۔ انہوں نے کہا، ''گرفتاری یا دھمکی کے خوف کے بغیر تمام افغانوں کو پرامن اجتماع، اظہار رائے اور رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ ہم ڈی فیکٹو حکام (حقیقی طالبان حکمران) سے ان حقوق کا احترام کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘

Afghanistan Protest gegen die Entführung von Studentinnen der Universität Kabul
اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں نے خواتین کو ہدف بنانے والے اپنے انتہائی سخت قسم کے قوانین سے دستبردار ہونے کا عزم کیا تھا۔ تاہم اس سمت میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہےتصویر: Privat

ادھر طالبان کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے، تاہم انہوں نے زیر حراست افراد کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

پریس کانفرنس میں ہوا کیا تھا؟

جمعرات کے روز کابل میں ہونے والی پریس کانفرنس میں شریک ایک شخص نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے کانفرنس کے منتظمین کو مطلع کیا تھا کہ وہ اس تقریب کا انعقاد نہیں کر سکتے اور تقریب کی کوریج کرنے والے صحافیوں سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔

اس خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، اقوام متحدہ کے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے، کہا کہ کانفرنس کے شرکاء کے فون تلاش کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس افسران نے فون پر لی گئی تقریب کی تمام تصاویر کو ڈیلیٹ کروا دیا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیں ایک ایک کر کے جانے کی اجازت دینے سے پہلے، ہماری توہین کی اور دھمکیاں بھی دیں۔ انہوں نے کہا،’’جب آپ بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب کا انعقاد بھی نہیں کر سکتے، تو یہ بات بہت مایوس کن محسوس ہوتی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے گروپ طالبان خواتین کی آزادیوں کو مجروح کرنے کا الزام لگاتے ہیں، جنہوں نے اگست 2021 ء میں دوبارہ اقتدار سنبھال لیا تھا۔

اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں نے خواتین کو ہدف بنانے والے اپنے انتہائی سخت قسم کے قوانین سے دستبردار ہونے کا عزم کیا تھا۔ تاہم اس سمت میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور خواتین کے لباس، نقل و حرکت اور ان کی تعلیم پر نئی پابندیوں کی وجہ سے انسانی حقوق کے گروپ طالبان کے وعدوں کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ سن 1990 کی دہائی میں طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار میں سخت ترین قسم کے شرعی قوانین نافذ کیے تھے۔

ص ز/ ک م (اے ایف پی، روئٹرز)

طالبان کے اقتدار میں ایک نوجوان خاتون کی زندگی