1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان تشدد چھوڑ کر حکومت میں شامل ہوں، افغان نائب صدر

26 دسمبر 2020

افغانستان کے نائب صدر نے طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل میں شریک ہوتے ہوئے پرتشدد کارروائیوں کو ترک کر دیں۔ افغانستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران مسلح حملوں کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3nEPP
Afghanistan Taliban
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M.S. Shayeq

افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے ہفتہ چھبیس دسمبر کو قومی مصالحتی کمیشن میں شریک مختلف سرکردہ رہنماؤں کی میٹنگ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کو مشورہ دیا کہ وہ پرتشدد راستے سے اجتناب کرتے ہوئے امن مذاکرات کے ذریعے حکومت کا حصہ بنیں۔

انہوں نے طالبان تحریک پر واضح کیا کہ وہ ان حملوں سے سارے  افغانستان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے راستے میں عوام اور حکومتی فوج بھی کھڑی ہے۔ نائب صدر کے اس بیان پر طالبان کا ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

افغان صحافی رحمت اللہ نیک زاد کا قتل

افغانستان ایک پیچیدہ سرزمین ہے

ملکی صدر اشرف غنی کے قریبی ساتھی اور نائب صدر امر اللہ صالح کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان سرزمین ایک پیچیدہ اور مشکل ملک ہے اور اس پر کسی ایک گروپ کا تسلط قائم ہونا ناممکن ہے۔ صالح کے مطابق ایسا کرنے والا گروپ انجام کار سارے ملک اور لوگوں سے کٹتے ہوئے تنہا رہ جاتا ہے۔

کابل حکومت کے نائب صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان قبائلی سرداروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افراد کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ملک پر کنٹرول کی جنگ نہیں جیت سکتے اور ایسا کرنے سے مجموعی صورت حال انتہائی گھمبیر اور مشکلات کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔

Bildkombo Flaggen Afghanistan / Taliban
طالبان کا اصرار ہے کہ کابل حکومت غیر اسلامی ہے

کابل حکومت غیر اسلامی ہے

کابل حکومت اور طالبان کے امن مذاکرات کا سلسلہ تعطل کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ کابل حکومت غیر اسلامی ہے اور اس کے خلاف مسلسل عملی کوششیں جائز ہیں اور انجام کار وہ ملک پر ایک مکمل اسلامی حکومت قائم کر کے رہیں گے۔

طالبان تحریک کے نمائندوں اور اشرف غنی حکومت کے وفد کے درمیان مذاکرات خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں۔ ابھی تک صرف ایک پیش رفت یہ دیکھی گئی ہے کہ طالبان مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہیں۔

افغانستان: حقوق نسواں کی علمبردار فرشتہ کوہستانی کا قتل

پرتشدد واقعات

افغانستان کو اس وقت ایک اور طرح کی پرتشدد صورت حال کا سامنا ہے۔ مسلح جہادی مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک واردات میں چار ہیلتھ ورکرز کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انتخابات کی نگرانی کرنے والے مبصر گروپ کا سربراہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ ایک حملے میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

Afghanistan Feeshte Kuhestani
خواتین کے حقوق کی کارکن فرشتہ کوہستانی کو چوبیس دسمبر کو قتل کر دیا گیا تھاتصویر: Facebook/Feeshte Kuhestani

خواتین کے حقوق کی غیر حکومتی تنظیم سے منسلک ایک خاتون کارکن کو اس کے بھائی سمیت گولیاں مار کر موت کی وادی میں اتار دیا گیا۔ بظاہر ان حملوں کی ذمہ داری کابل حکومت کی جانب سے طالبان پر عائد کی گئی ہے۔ ہفتہ چھبیس دسمبر کو کابل کے مختلف علاقوں میں چار دھماکے ہوئے ہیں اور ان کی ذمہ داری کسی عسکری گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔

طالبان لیڈروں کے ’پاکستان میں کیمپوں‘ کے دورے، کابل کو تشویش

طالبان جمہوری اقدار کو تسلیم کریں

اہم جنگی سردار عبد الرشید دوستم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دوحہ مذاکرات میں کابل حکومت یہ بات طالبان پر واضح کر دے کہ وہ ملک میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کو تسلیم کریں اور عوام میں اپنی مقبولیت کے امتحان کے طور پر اپنے نمائندوں کو حکومتی عہدوں پر نامزد کریں۔

ایک سابق نائب صدر یونس قانونی نے غنی حکومت پر سلامتی کی ناقص صورت حال کے تناظر میں کڑی تنقید کی ہے۔ انہوں نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تشدد کو قابو کرنے کے اعلیٰ سطحی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔

ع ح، ع آ (ڈی پی اے)