1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر بش کو نئی عراق پالیسی پر دنیا بھر میں مخالفت کا سامنا

12 جنوری 2007

صدر بش کی پالیسی کو صرف مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے عہدیدار ہی ہدف تنقید نہیں بنا رہے بلکہ صدر بش کی ریپبلکن پارٹی کے بعض اہم رہنما بھی اس پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ صدر بش نے اپنی نئی پالیسی میں سابق وزری خارجہ جیمز بیکر کی سربراہی میں تشکیل پانے والے عراق اسٹڈی گروپ کی عراق سے فوج واپس بلانے کی تاریخ دینے اور ایران اور شام سے مذاکرات کرنے سے متعلق دو اہم تجاویز کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYHt
تصویر: AP

صدر بش کی عراق کے سلسلے میں نئی پالیسی کو امریکہ سمیت دنیا بھر میں تنقید کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں ایک اعلی ترین سیاستدان اور سینیٹ کے خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ Joseph Biden نے عراق میں مزید امریکی فوج بھیجنے کی پالیسی کو ایک غم انگیز غلطی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ نئی اسٹریٹیجی عراق کے بحران کے حل کا راستہ نہیں ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر Nency Pelosi نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے صدر بش کی عراق میں مزید امریکی فوج بھیجنے کی پالیسی کی مخالفت کی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ امریکی کانگرس صدر بش کی عراق کی پالیسی کا گہری نگاہ سے جائزہ لے گی۔

صدر بش کی پالیسی کو صر ف مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے عہدیدار ہی ہدف تنقید نہیں بنا رہے بلکہ صدر بش کی ریپبلکن پارٹی کے بعض اہم رہنما بھی اس پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ صدر بش نے اپنی نئی پالیسی میں سابق وزری خارجہ جیمز بیکر کی سربراہی میں تشکیل پانے والے عراق اسٹڈی گروپ کی عراق سے فوج واپس بلانے کی تاریخ دینے اور ایران اور شام سے مذاکرات کرنے سے متعلق دو اہم تجاویز کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔

صدر بش کے ریپلکن ساتھی چارلز ہیگل نے عراق کے سلسلے میں اس نئی پالیسی کو ویتنام کی جنگ کے بعد خارجہ پالیسی میں خطرناک ترین غلطی قرار دیا ہے۔ ڈیموکریٹک سینیٹر باربرا بوکسر نے گزشتہ روز وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس سے نہایت تند و تیز لہجے میں کہا کہ نہ تو آپ لوگ امریکی عوام کی سنتے ہیں نہ فوج کی اور نہ ہی عراقی اسٹڈی گروپ کی ۔

ادھر امریکہ کے کئی بڑے شہروں میں جنگ مخالف فعالیت پسندوں نے بش کی نئی عراق پالیسی کے کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس پالیسی سے عراق میں مزید خون بہے گا اور مزاحمت کاروں کو امریکہ کے خلاف نئے اہداف متعین کرنے کا موقع ملے گا۔

البتہ نئے امریکی وزیر خارجہ Robert Gates نے یہ اشارہ ضرور دیا ہے کہ اگر عراق کی حکومت نے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری نہ کی تو عراق مزید فوج بھیجنے کا ارادہ ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزار ائس نے بھی کہا ہے کہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے پاس اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ وقت نہیں ہے۔

دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے اخبارات نے بھی صدر بش کی عراق کے سلسلے میںنئی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ بہترین راستہ یہی تھا کہ مزاحمت کاروں سے بات چیت کی جاتی۔ قطر کے اخبار AL-Raya نے لکھا ہے کہ عراق کے سلسلے میں نئی پالیسی کہ جو خود امریکی عوام کو بھی قائل نہیں کر سکی ہے، امریکہ کو ایک ہولناک ناکامی کی طرف لے جا رہی ہے۔

قطر کے اخبار الشرق نے لکھا ہے کہ عراق میں فوج کی تعداد بڑھانے سے صرف تشدد میں اضافے اور عراق کی دولت و ثروت مزید تباہ ہونے کا باعث بنے گی۔دریں اثنا CBS نے اپنی سروے رپورٹ میں بتایا ہے کہ 50 فی صدامریکی عوام نے صدر بش کی عراق مزید فوج بھیجنے کی پالیسی کی مخالفت کی ہے۔