1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شور بہت ہو گیا، مساجد، گرجے اور نائٹ کلب سب بند‘

عاطف توقیر16 جولائی 2016

افریقہ کے سب سے بڑے شہر لاگوس میں شور کو کم کرنے کے لیے درجنوں مساجد، گرجے اور نائٹ کلب بند کر دیے گئے ہیں۔ اس شہر کے ایک حصے کو ’پرسکون‘ بنانے کی حکومتی مہم جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1JQAR
Symbolbild Christentum Judentum Islam
تصویر: picture alliance /Godong/Robert Harding

نائجیریا کے شہر لاگوس کی آبادی 20 ملین ہے اور یہاں کی شہری انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ شہر کا ساحلی علاقہ ہر طرح کے شور سے پاک کر دیا جائے۔ اس کے لیے سن 2020ء کی ڈیڈلائن رکھ کر مساجد، گرجا گھر اور نائٹ کلب بند کیے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اب تک درجنوں عبادت اور رقص گاہیں بند کی جا چکی ہیں۔

لاگوس کی تحفظِ ماحول کی سرکاری ایجنسی کے جنرل مینیجر ادیبولا شابی کے مطابق، ’‘یہ ایک بڑا کام ہے۔ مطالعاتی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ شور کی سطح سے تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی صحت پر مضر اثرات پڑتے ہیں اور اس کا تدارک نہایت ضروری ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک یہ ایجنسی شور کی بنیاد پر 70 گرجے اور 20 مساجد بند کرا چکی ہے، اس کے ساتھ ساتھ درجنوں پب، ہوٹل اور کلب بھی بند کیے جا چکے ہیں۔

Symbolbild Christentum Judentum Islam
شور کی شکایت پر کسی بھی مسجد، گرجے یا نائٹ کلب کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہےتصویر: picture alliance/Godong

ان کا کہنا تھا کہ حکام نے یہ اقدامات مقامی افراد کی جانب سے شکایات موصول ہونے کے بعد اٹھائے گیے۔ ’’پہلے تو ان مساجد، گرجوں اور کلبز کے مالکان کو بلا کر سمجھایا گیا، مگر جب انہوں نے شور کا سلسلہ جاری رکھا، تو انہیں بند کر دیا گیا۔‘‘

ایک مقامی رہائشی کے مطابق، ’’میرے علاقے میں ایک گرجا ہے اور ایک مسجد ہے۔ دونوں میں ایک طرح سے یہ مقابلہ جاری رہتا ہے کہ زیادہ بلند آواز کس کی ہے۔ جب مسلمان ایک اسپیکر لاتے ہیں تو مسیحی اس سے بڑا خرید لاتے ہیں۔‘‘

اس شخص کا مزید کہنا تھا، ’’مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں صبح تین بجے اذانیں شروع ہو جاتی تھیں، جب کہ رات کو دیر گئے گرجے سے گیت نشر ہوتے رہتے تھے۔ ہمیں پوری پوری رات ایک طرح سے جاگنا پڑتا تھا۔‘‘

تاہم ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق مقامی رہائشی مساجد یا گرجا گھروں سے متعلق شکایت کرنے میں خوف اور گھبراہٹ بھی محسوس کرتے ہیں۔ ’’جب آپ حکام کو بتاتے ہیں کہ انہیں شور سے روکا جائے، تو یا کلیسا آپ کو مسیحی مخالف یا مسلمان اسلام مخالف سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ گلیوں میں دشمنی کی صورت میں نکلتا ہے۔‘‘