1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں پر تبادلہء خیال

11 اکتوبر 2006

پیر کے روز نیویارک میں سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے درمیان شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کے موضوع پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کے بعد آج بدھ کو پانچ ویٹو طاقتیں اور جاپان اِس موضوع پر تبادلہء خیال کر رہے ہیں۔ امریکہ کے تجویز کردہ ایک مسودہء قرارداد میں جاپان کی یہ تجویز بھی شامل کر لی گئی ہے کہ تمام ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کو شمالی کوریا کے ہوائی اور بحری جہازوں کےلئے ممنوع قرار دے دیا جائے۔ خود جاپان نے نہ صرف اپنی بند

https://p.dw.com/p/DYIi
شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر جون بولٹن کی پیر کے روز نیویارک میں عالمی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت
شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر جون بولٹن کی پیر کے روز نیویارک میں عالمی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکتتصویر: AP

رگاہیں شمالی کوریائی بحری جہازوں کےلئے بند کر دی ہیں بلکہ شمالی کوریا سے تمام درآمدات پر بھی پابندی عاید کر دی ہے۔

جہاں تک عالمی سلامتی کونسل میں زیرِ بحث پابندیوں کا تعلق ہے، شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اِن پابندیوں کو اعلانِ جنگ کے مترادِف تصور کیا جائے گا اور اگر امریکہ نے زیادہ ہی ہراساں کیا اور دباؤ ڈالا تو شمالی کوریا مزید ایٹمی دھماکے بھی کر سکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر جون بولٹن کے مطابق شمالی کوریا کے عوام دُنیا بھر میں سب سے زیادہ استحصال زَدہ باشندے ہیں۔ جہاں حکومت ایٹمی ہتھیار اور میزائل تیار کرتی رہی، وہاں شمالی کوریا کے شہریوں کے اَوسط وزن اور قد میں کمی ہوتی رہی۔ اِس لئے پابندیوں کا نشانہ عام ضروریاتِ زندگی کو نہیں بلکہ شمالی کوریا کے مقتدر طبقات کے لئے پُر تعیش اَشیاء کی درآمد اور اسلحہ بندی کے پروگراموں کو بنایا جانا چاہیے۔

تاہم شمالی کوریا کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہی اُس کا سب سے بڑا حلیف بھی ہے، یعنی چین، جس کے ساتھ تجارت کا حجم شمالی کوریا کی مجموعی تجارت کا 40 فیصد بنتا ہے۔ گذشتہ سال چین سے درآمد کی گئی مصنوعات کی مالیت ایک ارب ڈالر تھی۔ شمالی کوریا کی 80 فیصد سے بھی زیادہ مصنوعات آج کل چین میں تیار ہوتی ہیں۔

اپنی ادائیگیاں بھی شمالی کوریا چینی بینکوں کی وساطت سے کرتا ہے کیونکہ امریکی پابندیوں کے باعث دیگر بینک شمالی کوریا کے ساتھ کاروبار کرنا بند کر چکے ہیں۔ اِسی طرح چین شمالی کوریا میں سرمایہ کاری کرنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے۔ اِس کی ایک نمایاں مثال شیشہ سازی کا 25 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والا وہ مہنگا کارخانہ ہے ، جس کے افتتاح کےلئے ایک سا ل پہلے چینی صدر ہو ژِن تاؤخود گئے تھے۔ اُس دَورے کے موقع پر چین نے شمالی کوریا کو تقریباً دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور تجارتی قرضوں کی ضمانت دی۔

مجموعی طور پر ایک سو چینی کمپنیاں چین میں سرگرمِ عمل ہیں۔ چین شمالی کوریا کےلئے شاہراہیں تعمیر کر رہا ہے اور ہزاروں شمالی کوریائی باشندوں کو سوفٹ ویئر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تربیت فراہم کر رہا ہے۔ چنانچہ سلامتی کونسل جو بھی فیصلہ کرے، چین اِس ایٹمی تجربے کے باوجود شمالی کوریا کے ساتھ اپنے یہ سارے روابط ختم نہیں کرے گا۔

اقوامِ متحدہ میں چینی سفیر وانگ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے منشور کے باب نمبر سات سے محض چند ایک نِکات لئے جائیں گے۔ وہ اِس لئے کہ امریکہ، فرانس، برطانیہ یا جاپان کے برعکس چینی سفیر وانگ کوئی ایسی قرارداد نہیں چاہتے، جو منشور کے اِس باب نمبر سات کی بنیاد پر ہو، جس کے تحت ضرورت پڑنے پر شمالی کوریا کے خلاف فوجی ذرائع کا استعمال بھی جائز ہو گا۔

اِدھر امدادی تنظیمیں بھی زور دے کر کہہ رہی ہیں کہ ممکنہ پابندیوں کا نشانہ شمالی کوریائی عوام کےلئے انسانی بنیادوںپردی جانےوالی امداد کو نہیں بنایا جانا چاہیے۔